ہفتہ , 20 اپریل 2024

لاہور ہائیکورٹ:پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت 17 اپریل تک منطور

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت 17 اپریل تک منطور کرتے ہوئے انہیں ایک کروڑ روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا۔جسٹس ملک شہزاد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے آمدن سے زائد اثاثے اور مبینہ منی لانڈرنگ کیس میں حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت میں توسیع کی درخواست پر سماعت کی، اس دوران لیگی رہنما کی جانب سے امجد پرویز اور دیگر قانونی ماہرین جبکہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم بھی کمرہ عدالت میں پیش ہوئی۔

اس موقع پر عدالت کے اطراف اور سڑکوں پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔عدالت میں سماعت کے آغاز پر جسٹس ملک شہزاد نے ریمارکس دیے کہ اتنے زیادہ لوگوں کو یہاں بلا لیا ہے یہ سب کیا ہے؟ اس پر حمزہ شہباز نے جواب دیا کہ ہم نے کارکنوں کو نہیں بلایا۔

اس موقع پر عدالت کی جانب سے نیب کے وکیل سے استفسار کیا گیا کہ آپ حمزہ شہباز کو کس کیس میں گرفتار کرنا چاہتے ہیں، جس پر نیب وکیل نے جواب دیا کہ حمزہ شہباز کے خلاف مجموعی طور پر 3 کیسز ہیں۔نیب وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں حمزہ شہباز کو گرفتار کرنا ہے، صاف پانی اور رمضان شوگر ملز میں ابھی ان کے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں ہوئے۔

اس پر حمزہ شہباز کے وکیل شہباز اعظم نذیر تارڑ نے موقف اپنایا کہ حمزہ شہباز کو رمضان شوگر ملز کیس میں ہائیکورٹ نے ضمانت دی تھی اور ان کے موکل کی گرفتاری سے پہلے 10 دن کا وقت دینے کا حکم دیا تھا۔حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں، وہ عدالتی ضمانت قبل از گرفتاری لینا چاہتے ہیں تاکہ نیب کے سامنے پیش ہوں۔

دوران سماعت نیب کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ کسی کی گرفتاری سے قبل 10 دن کا وقت دینا ضروری نہیں، اس پر جسٹس ملک شہزاد احمد نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے ہمارے لیے قابل احترام ہیں، ہم تفصیلی دلائل بعد میں سنیں گے۔

عدالتی ریمارکس پر وکیل نیب نے کہا کہ حمزہ شہباز کے اکاؤنٹس سے غیر قانونی ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں، گرفتاری کا مقصد یہ ہے کہ حمزہ شہباز ریکارڈ کو غائب نہ کردیں، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت مسترد کرے۔

بعد ازاں عدالت نے حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت میں 17 اپریل تک توسیع کرتے ہوئے ایک کروڑ روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا، ساتھ ہی عدالت نے نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔

خیال رہے کہ 6 اپریل کو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار شمیم نے حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے نیب کو 8 اپریل تک حمزہ شہباز کی گرفتاری سے روک دیا تھا۔عدالت نے اپنے 3 صفحات کے مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ حمزہ شہباز کی حفاظتی ضمانت منظور کی جاتی ہے، تاہم ساتھ ہی انہیں 8 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے روبرو پیش ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔

دوسری جانب مسلم لیگی کارکنان بھی احاطہ عدالت پہنچنا شروع ہوگئے اور حمزہ شہباز کے حق میں شدید نعرے بازی کی، جس پر عدالت کے سیکیورٹی انچارج نے انہیں نعرے لگانے سے روک دیا۔پولیس کی جانب سے کارکنان کو احاطہ عدالت میں نعرے اور مسلم لیگ (ن) کے بینرز آویزاں کرنے سے روکتے ہوئے کہا گیا کہ عدالت میں نعرے لگانے کی اجازت نہیں۔

حمزہ شہباز کی گرفتاری کیلئے نیب کے چھاپے
خیال رہے کہ 5 اپریل 2019 کو پھر آمدن سے زائد اثاثہ جات اور مبینہ منی لانڈرنگ کیس میں نیب کی ٹیم نے لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں شہباز شریف کی رہائش گاہ پر حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا تھا، تاہم وہ انہیں گرفتار نہیں کرسکی تھی۔

اس واقعے کے اگلے روز 6 اپریل کو ایک مرتبہ نیب کی ٹیم مذکورہ کیسز میں حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ پر پہنچی تھی اور گھر کا محاصرہ کرلیا تھا۔لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں شہباز شریف کی رہائش گاہ 96 ایچ میں موجود حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے نیب کا یہ دوسرا چھاپہ تھا

تاہم نیب کی یہ کارروائی ڈرامائی صورتحال اختیار کر گئی تھی اور تقریباً 4 گھنٹے کے طویل محاصرے کے باوجود نیب ٹیم کے اہلکار رہائش گاہ کے اندر داخل نہیں ہوسکے تھے۔

اس تمام صورتحال کے دوران نیب کی ٹیم کی سربراہی کرنے والے ایڈیشنل ڈائریکٹر چوہدری اصغر اور حمزہ شہباز کے قانونی مشیر عطا تارڑ کے درمیان گرفتاری کے معاملے پر تکرار بھی ہوئی جبکہ دوسرے چھاپے کی اطلاع ملتے ہیں شہباز شریف کے گھر پہنچنے والے لیگی کارکنان اور پولیس اہلکاروں میں جھڑپ بھی ہوئی تھی۔چوہدری اصغر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ان کے پاس حمزہ شہباز کی گرفتاری کے وارنٹ موجود ہیں اور وہ آج حمزہ شہباز کو گرفتار کرکے ہی جائیں گے۔

واضح رہے کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی جانب سے حمزہ شہباز کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔انہوں نے کہا تھا کہ میری حمزہ شہباز سے درخواست ہے کہ وہ دیواروں کے پیچھے نہ چھپیں اور گھر سے باہر آئیں تاکہ قانونی طریقے سے ان کی گرفتاری عمل میں لائی جاسکے۔

تاہم حمزہ شہباز کے قانونی مشیر نے نیب کے وارنٹ کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ حمزہ شہباز کی گرفتاری سے 10 روز قبل انہیں آگاہ کرنا ہوگا۔اسی روز اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے نیب نے حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے احتساب عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ انہیں پولیس کے ہمراہ حمزہ شہباز کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔

تاہم احتساب عدالت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کرمنل پروسیجر کوڈ کے چیپٹر 5 کی روشنی میں ملزم کی گرفتاری کے طریقہ کار کو تفصیل سے واضح کیا گیا ہے اور اس کا اطلاق تمام طرح کی کارروائی پر ہوتا ہے۔عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ اس معاملے میں پہلے سے جاری وارنٹ گرفتاری کے حوالے سے اس وقت تک کوئی خصوصی ہدایات کی ضرورت نہیں، جب تک کوئی متعلقہ انتظامیہ اسے معطل نہ کرے۔

آمدن سے زائد اثاثے، مبینہ منی لانڈرنگ کیس
واضح رہے کہ قومی احتساب بیورو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے ساتھ ساتھ ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کے خلاف بھی تحقیقات کر رہا ہے اور اس سلسلے میں وہ کئی مرتبہ نیب کے سامنے بھی پیش ہوچکے ہیں۔اسی تحقیقات کی روشنی میں نیب حکام کی درخواست پر ان کا نام بھی ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا جبکہ انہیں ایک مرتبہ بیرون ملک جانے سے بھی روکا گیا تھا۔

تاہم بعد ازاں اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کردیا گیا تھا اور لاہور ہائیکورٹ نے حمزہ شہباز کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی تھی لیکن نیب کی جانب سے ان چھاپوں کے بعد ایک مرتبہ پھر ان کا نام بیرون ملک سفر سے روکنے والی فہرست میں شامل کرنے کی منظوری دے دی گئی تھی۔

ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ نیب کی ٹیم حمزہ شہباز کو صرف آمدنی سے زائد اثاثے کے کیس میں نہیں بلکہ مبینہ منی لانڈرنگ میں ثبوت کی بنیاد پر گرفتار کرنے پہنچی تھی۔اس سارے معاملے پر نیب ذرائع نے بتایا تھا کہ شہباز شریف کے اہل خانہ کی جانب سے اربوں روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ کے ثبوت ملنے کا انکشاف ہوا، جس کی بنیاد پر حمزہ اور سلیمان شہباز کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔

ذرائع نے بتایا تھا کہ نیب کو منظم مبینہ منی لانڈرنگ کی چونکا دینے والی اسکیم کا پتہ چلا، جس کے ذریعے شہباز شریف کے اہل خانہ کے اراکین نے حالیہ برسوں میں غیرقانونی دولت بنائی اور یہ سب اس وقت کیا گیا جب شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔

اس بارے میں ذرائع نے مزید بتایا تھا کہ نیب کو کرپشن اور منظم مبینہ منی لانڈرنگ کے ذریعے 85 ارب روپے مالیت کے اثاثوں کا پتہ چلا اور یہ بات سامنے آئی کہ ملنے والے ثبوت ناقابل تردید ہیں اور شریف خاندان کے مختلف ارکان منظم مبینہ منی لانڈرنگ اور غیر قانونی دولت بنانے میں ملوث ہیں۔

حمزہ شہباز کی جانب سے 2003 میں ظاہر کیے گئے اثاثے 2 کروڑ روپے سے کم تھے تاہم ان کے والد کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے بعد ان کی ذاتی دولت مبینہ طور پر 41 کروڑ (تقریباً 2 ہزار فیصد) سے زائد بڑھ گئی تھی۔

اسی سلسلے میں نیب نے حمزہ شہباز سے متعلق نیب کی جانب سے کچھ قریبی ساتھیوں اور سہولت کاروں کو گرفتار کیا گیا جنہوں نے دوران تفتیش کرپش اور مبینہ منی لانڈرنگ کا پورا طریقہ بتایا تھا۔ساتھ ہی لاہور کی احتساب عدالت نے شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے اور مبینہ منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں گرفتار 2 افراد قاسم قیوم اور فضل داد کو 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا تھا۔

یہ بھی دیکھیں

سعودی عرب نے 3 ارب ڈالر کے ڈپازٹ کی مدت میں توسیع کردی

کراچی: سعودی عرب نے پاکستان کی معیشت کو استحکام دینے کے لیے پاکستان کے ساتھ …