منگل , 23 اپریل 2024

امریکہ اسرائیل کا سرپرست

(تحریر: صابر ابو مریم)

فلسطین پر قائم ہونے والی صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو قیام سے ہی برطانوی استعمار سمیت امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ ہی اسرائیل کی سکیورٹی کا بہانہ بنا کر خطے پر اپنا تسلط قائم کرنے کی متعدد کوششیں کی ہیں۔ اسرائیل جو پہلے استعماری قوتوں کی ناجائز اولاد کے طور پر پیدا ہوا، اب امریکہ کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا فن رکھتا ہے اور اس کام کو انجام دینے کے لئے صہیونیوں کی لابی پہلے ہی امریکہ میں پنجہ گاڑ چکی ہے، جس کے باعث امریکی سیاست اب صہیونیوں کی مرہون منت رہ گئی ہے۔ فلسطین پر صہیونیوں کے ناجائز تسلط اور غاصبانہ قبضہ کے بعد سے ستر سال کی تاریخ میں فلسطینی عوام صہیونیوں کے مظالم کا نشانہ بنتی آرہی ہے۔

فلسطینیوں کو صرف اپنی زندگیوں سے ہی ہاتھ نہیں دھونا پڑا ہے بلکہ اپنے گھروں، اپنے کھیتوں، باغات، حتیٰ زندگی سے متعلق تمام معاملات سے محروم کئے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی بڑی بڑی تنظیمیں یوں تو حقوق کی بات کرتے نہیں تھکتی ہیں، لیکن فلسطین کے معاملے میں کوئی بھی عالمی ادارہ اور کوئی بھی انسانی حقوق کی تنظیم اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی سے باز نہیں رکھ سکی۔ امریکہ جو خود امن کا راگ الاپتا ہے، سالانہ بنیادوں پر اربوں ڈالرز کا اسلحہ اسرائیل کو امداد کے نام پر دے رہا ہے اور اس یہ تمام اسلحہ فلسطینیوں پر تجربات کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ امریکہ نہ صرف دنیا میں دہشت گردی کا بانی ہے بلکہ فلسطین میں ہونے والے ہزاروں انسانوں کے قتل عام میں اسرائیل کا برابر شریک جرم ہے، کیونکہ اسرائیل کو امریکی سرپرستی حاصل ہے۔

اقوام متحدہ میں جب بھی فلسطینیوں کے حقوق کی بات ہو تو امریکہ سب سے پہلے اس معاملہ پر اپنا ویٹو کا حق استعمال کرکے فلسطین کے مظلوم عوام کے حقوق کو زندہ ہونے سے پہلے ہی دفن کرنے کی گھناؤنی کوشش کرتا ہے۔ موجودہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ تو ایک درجہ کے احمق شمار ہوئے ہیں، کیونکہ دور صدارت میں آنے کے بعد انہوں نے ایسے فیصلہ جات صادرر کنا شروع کر دیئے ہیں کہ جس سے دنیا میں ایک بھونچال کی کیفیت پید اہو رہی ہے۔ کبھی وہ امریکی سیاہ فاموں کے خلاف بیانات صادر کرتے ہیں تو کبھی میکسیکو کا راستہ بند کرنے کیلئے نسلی امتیاز پر مبنی دیوار قائم کرنے کے احکامات جاری کر دیتے ہیں۔ اسی طرح بچوں کو ان کے والدین سے علیحدہ کرنے جیسے احکامات بھی موجودہ امریکی صدر کے احمقانہ اقدامات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ان سب باتوں سے بڑھ کر امریکی صدر ٹرمپ نے گذشتہ برس میں فلسطین کے دارالحکومت کو ہی تبدیل کرنے کا یکطرفہ اعلان کرکے پوری دنیا کو حیرت مین مبتلا کر دیا۔ امریکہ کے اس نمبر ایک احمق نے فلسطین کے تاریخی شہر اور دارالحکومت ’’یروشلم‘‘ کو صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی امریکی سفارتخانہ کو تل ابیب سے نکال کر یروشل منتقل کر دیا۔ امریکی صدر کے اس اعلان پر پوری دنیا نے مذمت کی اور اقوام متحدہ نے اس فیصلہ کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ دراصل امریکی صدر ٹرمپ کے فلسطین سے متعلق یک طرف احکامات و اعلانات صرف اور صرف صہیونیوں کی خوشنودی کی خاطر ہیں، تاکہ امریکہ میں موجود صہیونی لابی ٹرمپ کو اپنی شاباش جاری رکھے اور شاید ٹرمپ کے مطابق وہ آئندہ انتخابات میں دوبارہ امریکہ کے صدر بن جائیں۔

بہرحال مسئلہ فلسطین سے متعلق اگر ستر سالہ تاریخ کا مطالعہ کریں تو شفاف طور پر نظر آتا ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی سرپرستی جاری رکھی ہے۔ چاہے حکمران کوئی بھی ہوں، امریکہ نے صہیونی لابی کی سیاسی حکمت عملیوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کسی بھی قانون اور بین الاقوامی اداروں کی عزت کا پاس نہیں رکھا ہے، بلکہ ہمیشہ عالمی و انسانی قوانین کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ چاہے اسرائیل کے فلسطین پر ناجائز قیام کا معاملہ ہو یا پھر اسرائیل کی دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے فلسطینیوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام، غارت گری، فلسطینیوں کو جلا وطن کرنا، عرب ممالک پر اسرائیلی جنگوں کا مسلط کرنا، فلسطینیوں کے علاقوں میں اسرائیلی وحشیانہ حملوں کا سلسلہ، یا پھر لبنان میں صابر و شاتیلا کے کیمپوں میں صہیونی افواج کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام، لبنان پر صہیونیوں کا قبضہ کرنا، شام کی گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضہ اور اسی طرح 2006ء میں لبنان پر جنگ مسلط کرنے سمیت غزہ کے علاقے میں متعدد جنگوں کا مسلط کرنے جیسے واقعات ہوں۔

ان تمام کے تمام معاملات اور واقعات میں امریکہ کی سرپرستی ہمیشہ اسرائیل کو حاصل رہی ہے، کیونکہ جب اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ کر، ان پر گولہ بارود کی بارش کرکے قتل عام کرتا ہے تو یہی امریکہ ہے، جو بین الاقوامی فورمز پر اسرائیل کا دفاع کرتا ہے اور حد تو یہ ہے کہ فلسطین میں اسرائیلی مظالم سے اپنا دفاع کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ لہذٰا دنیا واضح طور پر مشاہدہ کر رہی ہے کہ امریکی حکومت دنیا کی بدنام ترین حکومت ہے، جو دنیا کے تمام ممالک میں دخل اندازی کرکے نہ صرف ان ممالک کے وسائل کو ہڑپنے میں مصروف عمل ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو عرب ممالک کے وسائل پر قابض کرنے کے لئے ایک پولیس مین کی حیثیت دے رکھی ہے اور اسرائیل کو اس کھلی چھٹی کے ساتھ اختیار دیئے گئے ہیں کہ چاہے فلسطینیوں کا قتل عام ہو یا لبنان میں صہیونیوں کے ہاتھوں قتل عام ہو، یا پھر اسرائیل شام پر فضائی حملوں میں قتل و غارت کرے، یا اس سے بڑھ کراسرائیل جو چاہے کرے۔

خلاصہ یہ ہے کہ امریکی حکمرانوں کی تاریخ بدترین اور سیاہ کارناموں سے بھری پڑی ہے اور ان سیاہ کارناموں میں سب سے بڑا کارنامہ امریکی حکمرانوں کا فلسطین پر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قیام کے لئے مدد کرنا اور فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز تسلط کو جائز قرار دیتے ہوئے فلسطینی مظلوموں کا قتل عام کرنے کا امریکی لائسنس اسرائیل کو دینا ہے۔ یہاں افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ دنیا کی چند ایک مسلمان و عرب ریاستوں کے حکمرانوں نے بھی امریکہ کے نمبر ون احمق ٹرمپ کے ہاتھوں میں اپنی عزت و حمیت کا سودا رکھ دیا ہے، جسے امریکی صدر نے صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ فروخت کر دیا ہے۔ یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہے اور آنے والی نئی نسلیں اس بات کو درک کرر ہی ہیں کہ امریکہ کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے اسی طرح رنگین ہیں، جس طرح صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے رنگیں ہیں۔

نسل نو اب نئے عزم کے ساتھ ان تمام کٹھن حالات میں امریکہ و اسرائیل کا مقابلہ کر رہی ہے اور اس کا نمونہ ہمیں آج بھی فلسطین میں امریکی ساختہ ٹینکوں کے سامنے ہاتھوں میں پتھر لئے نوجوان اور بچے مزاحمت کرتے نظر آتے ہیں، جو اس امید کے ساتھ مزاحمت کر رہے ہیں کہ عنقریب وہ دن آنا ہے کہ جب فلسطین پر صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کی نابودی ہونی ہے، تاہم آنے والی تاریخ کبھی امریکی حکمرانوں کو اسرائیل کی سرپرستی کرنے اور فلسطینیوں کے قتل عام کا لائسنس دینے پر معاف نہیں کرے گی۔ امریکی سیاست کے ماتھے پر یہ سیاہ دھبہ ہمیشہ قائم رہے گا۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …