ہفتہ , 20 اپریل 2024

ریاست کا شاندار کرتا اور پولیس

(وسعت اللہ خان) 

دو روز قبل سندھ پولیس نے کمیونٹی پولیسنگ اور پولیس امیج کے موضوع پر کراچی میں ایک بڑی ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ اس میں پولیس کے حاضر و ریٹائرڈ اعلیٰ افسروں، بیورو کریٹس، ایک غیر ملکی سفارتکار اور سول سوسائٹی کے نمایندوں نے ڈجیٹل پریزنٹیشنز کے ذریعے پولیس، مسائل، کارکردگی اور حل کے بارے میں اپنے مشاہدات و تجربات و خواہشات کی روشنی میں تجاویز دیں۔

بیشتر تجاویز، شکوے شکایات اور آخر میں ایک روشن مستقبل کی تصویر کشی کم و بیش وہی تھی جو ہم سب پچھلے تہتر برس میں رپورٹوں، اجلاسوں، کمیشنوں، اصلاحات کی باتوں اور ایک بار پھر پرعزم ہونے کی شکل میں دیکھتے آ رہے ہیں۔

اگر اس ورکشاپ کی کوئی اچھی اور صحت مند بات تھی تو وہ یہ کہ پہلی بار ایسا لگا کہ پولیس اسٹیبلشمنٹ اپنے بارے میں کچھ کہنا اور سننا چاہتی ہے اور ایسی اصلاحات، بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی اور ادارتی خود مختاری چاہتی ہے جس کا فیصلہ اس کے ہاتھ میں نہیں اور بطور ایک لازمی سروس وہ کھل کے اس کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتی مگر ریٹائرڈ افسروں، بیورو کریٹس اور سول سوسائٹی کے توسط سے وہ تبدیلی کی یہ خواہش اوپر تک پہنچانا چاہتی ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ پولیس کو بہتر بنانے کے لیے فیصلہ سازوں نے اب تک جو پھرتیاں دکھائی ہیں، کاغذ پر جتنی دلکش تجاویز دی ہیں، جو اصلاحاتی نقشے بنائے ہیں اگر ان میں سے نصف چھوڑ چوتھائی پر بھی عمل ہو جاتا تو شاید اس طرح کے سیمیناروں اور ورکشاپوں کی ضرورت نہ پڑتی۔ مگر معاملہ پھر وہیں آن کے اٹک جاتا ہے۔ یعنی نیک نیتی کے کنوئیں میں پڑے بدنیتی کے کتے کو نکالنے کے بجائے نیک خواہشات کے چالیس ڈول نکال کر کنواں خود بخود صاف ہو جائے تو کتنا اچھا ہو۔

کسی بھی ریاست کو اچھی پولیس اور پولیسنگ کی ہمیشہ ضرورت ہے اور رہے گی لیکن کیا ریاست چلانے والوں کو بھی ایک ایسی پولیس درکار ہے جو طے شدہ دائرے میں اپنی ذمے داریاں نبھانے کو بوجھ نہ سمجھے، مالی اور مراعاتی طور پر آسودہ ہو، عوام دوست ہو، خود مختار ہو اور لاقانونیت پر نہ خود سمجھوتہ کرے نہ کسی اور کو کرنے دے اور نہ کوئی اسے ایسا کرنے پر مجبور کر سکے۔

انگریز نے نوآبادیاتی پولیس ڈھانچہ طاقت کے بل پر مقامی ایجنٹ اشرافیہ کی مراعاتی مدد سے عوام کو دبا کے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے وضع کیا تھا۔ اگر یہ ڈھانچہ اتنا ہی اچھا ہوتا تو خود برطانیہ کے اندر بھی یہی لاگو ہوتا مگر ایسا تو نہیں ہوا۔ انھوں نے اپنے لیے الگ اور ہمارے لیے الگ ڈھانچہ بنایا جیسا کہ ہر نوآبادیاتی طاقت کرتی ہے۔

مگر ہم نے کیا کیا؟ ہماری اشرافیہ نے لاکھوں قربانیوں کے ایندھن کی قیمت پر انگریز سے آزادی کا چیک تو وصول کر لیا مگر اسے عوام کی آزادی و سہولت کے ریاستی اکاؤنٹ میں جمع کروانے کے بجائے اپنے حق میں کیش کروا لیا اور عوام کو آج، کل، پرسوں پر لگا دیا۔

نوآبادیاتی خوراک پر پلنے والی اشرافیہ انتظامی اداروں کو ایک آزاد ملک کے شایانِ شان اور جدید تو خیر کیا بناتی الٹا اس نے ان اداروں کو اور خونخواربنا دیا۔ یعنی یہ لے لو اختیارات اور ان اختیارات کے بل بوتے پر ہمارا ہر حکم بجا لاؤ اور جو بھی مالی کمی بیشی اور محرومی ہے وہ رعایا کو دبا کر، نچوڑ کر پورا کر لو۔

مجھے یہ ماننا خاصا دشوار ہے کہ اگر پولیس معاشرے کو نظم و ضبط میں رکھنے اور جرائم کی بیخ کنی کے تعلق سے پہلی دفاعی لائن ہے تو اس کی تنظیم، تربیت، ادارتی خود مختاری اور بجٹ درجہِ اول کی ترجیحات میں کیوں شامل نہیں۔ یہ کوئی بھول نہیں بلکہ سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ جس طرح شکاری کتے کو کبھی پیٹ بھر کھانا نہیں دیا جاتا تاکہ وہ شکار پر پوری وحشت اور شدت سے جپھٹے اور ہر وقت مالک کی جانب ملتجانہ نگاہوں سے دیکھتا رہے اور صلے کی آس میں آنکھ بند کر کے وفاداری نبھاتا رہے یہی اصول آزاد اشرافیہ نے غلام پولیس پر بھی لاگو کر رکھا ہے۔

یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ کسی بھی مہذب خود مختار عوام دوست جمہوری ریاست میں جس طرح عدلیہ، مقننہ، مسلح افواج، مالیاتی ادارے، احتسابی ادارے اپنے اپنے دائروں میں خود مختار بھی ہیں مگر ایک بڑی ریاستی اکائی کی تشکیل و مضبوطی کے لیے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اسی دائرے میں پولیس کی خود مختاری و وقار بھی شامل ہے۔ مگر ہم باقی اداروں کی خود مختاری اور ان کے لیے متعین دائرے میں انکروچمنٹ کے بارے میں تو مسلسل بھاشن پاتے رہتے ہیں البتہ ریاست کی پہلی دفاعی لائن پولیس کو اس انتظام میں ”غریب کی جورو سب کی بھابھی“ کی طرح دیکھتے، برتتے اور اسی اصول کے تحت اس کی کارکردگی بھی جانچتے ہیں۔

ملکی دفاع اگر صرف بھاری اسلحے سے ممکن ہوتا تو جو دس ترقی پذیر ممالک سب سے زیادہ بھاری اسلحہ خریدتے ہیں وہ ناقابلِ تسخیر ہوتے۔ اور اس فہرست میں ترقی پذیر ممالک کے بجائے امیر اور جمہوری ممالک ہی شامل ہوتے۔ ہم نے امیر اور جمہوری ممالک کی جزوی نقالی تو ضرور کی مگر وہ کس بنیاد پر ترقی یافتہ اور مستحکم ہیں اس پر غور کرنے کی کبھی سنجیدگی سے جانتے بوجھتے بھی زحمت نہیں کی۔

اگر ریاست کے انتظامی ڈھانچے کو ایک انسانی جسم تصور کر لیا جائے تو پولیس اس جسم کو رواں رکھنے والی ٹانگیں ہیں، ہاتھ عدلیہ ہیں، دل مسلح افواج اور دماغ مقننہ ہے۔ دماغ کیسی ہی شاندار اسکیم بنا لے، دل کتنا ہی دلیر ہو، ہاتھ کتنے بھی آہنی ہوں مگر ٹانگیں کمزور یا لقوہ زدہ ہوں تو چھپن انچ کا سینہ اور آئن اسٹائن کا دماغ بھی کیا کر سکتا ہے اور کتنی دور تک جا سکتا ہے۔

یہ بات سمجھنے کے لیے آخر کتنا جینیس ہونا ضروری ہے کہ اگر تم تعلیم یافتہ نسل پیدا کرنا چاہتے ہو تو پرائمری لیول اور پرائمری ٹیچر کو سب سے زیادہ قابل، باوسائل اور باصلاحیت بناؤ، اگر تم صحت کی مثالی سہولتیں پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس جونئیر ڈاکٹر کی توقیر کرو جو ایمرجنسی وارڈ میں اپنے پیروں پر چوبیس گھنٹے کھڑا ہے، اگر تم انصاف کی ترسیل چاہتے ہو تو بالائی عدلیہ سے بھی پہلے ادنی ترین عدالت میں قابل جج کو متعین کرو اور اس کے فیصلوں پر مکمل عمل درآمد کرواؤ اور اسے مالی اور جان کا تحفظ بھی دو اور اگر تم سماج کو عفریتوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو پولیس کو عفریت میں ڈھالنے کے بجائے اسے اختیارات کے استعمال کی کھلی چھوٹ دو، بہترین تفتیشی سہولتیں فراہم کرو، اسے اور اس کے اہلِ خانہ کو مالی، تعلیمی و صحت کا تحفظ دو اور اس کے بعد بھی وہ اپنے دائرے سے تجاوز کرے یا فرائص میں غفلت برتے تو ایک غیر جانبدار احتسابی مشینری کے ذریعے اسی پولیس والے کا کورٹ مارشل اسٹائل میں احتساب کرو۔

ریاستی رٹ کیا ہوتی ہے؟ ادنی ترین سطح پر اس کا مظہر ایک معمولی پولیس سپاہی یا ٹریفک کانسٹیبل ہے۔ اگر لوگ اس معمولی سپاہی سے خوفزدہ ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پوری ریاستی رٹ ہی خوف کے ستونوں پر کھڑی ہے۔ اگر لوگ اسے اپنا مدد گار سمجھ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پورا ریاستی ڈھانچہ عوام و قانون دوست ہے۔

ریاستی رٹ ختم کب ہوتی ہے؟ جب پولیس کا کوئی باوردی سپاہی دن یا رات کو ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد گھر واپسی کے لیے سڑک پر ہر آنے جانے والے سے لفٹ مانگتا ہے۔ اسی لمحے عام شہری کے لیے ریاستی رٹ غیر سنجیدہ و بے معنی ہو جاتی ہے۔ جس سپاہی کو ریاست پک اینڈ ڈراپ نہیں دے سکتی اس سے میں اپنی حفاظت، فرائص کی بجا آوری اور قانون کے نفاذ کی توقع کیا رکھوں؟

آپ نے باقی ادارے بھلے کتنے ہی شاندار، دبدبے دار بنا لیے ہوں مگر ریاستی رٹ کی بنیادی اکائی یعنی پولیس کو باوقار، با اختیار اور کارآمد بنانا بھول گئے ہوں تو یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ میں نے کرتا تو شاندار، چمچماتا، کڑھائی دار پہن رکھا ہو مگر پاجامہ غائب ہو۔بشکریہ ایکسپریس نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …