جمعہ , 19 اپریل 2024

نیتن یاہو کا انتخاب مغربی کنارہ بھی جانے کو ہے

(تحریر: سید اسد عباس)

اسرائیل پانچویں بار نیتن یاہو کا ہوا، یوں نیتن یاہو اسرائیل کے سب سے طویل مدت تک برسر اقتدار رہنے والے وزیراعظم بن گئے ہیں۔ ان کا یہ اقتدار اسرائیلی جارج واشنگٹن یعنی پہلے اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین سے بھی طویل ہوچکا ہے۔ دس اپریل 2019ء کو قبل از وقت ہونے والے اسرائیلی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں بینجمن نیتن یاہو کو سخت ترین مقابلے کے باوجود کامیابی ملی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نیتن یاہو پر ملک کی عدالتوں میں کرپشن اور رشوت ستانی کا مقدمہ چل رہا ہے، جس کے خلاف ملک بھر میں متعدد مظاہرے ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی آئین کے مطابق جب تک نیتن یاہو پر الزامات ثابت نہیں ہوتے، اس وقت تک وہ ملک کے وزیراعظم رہ سکتے ہیں۔ اس سے قبل بھی ملک کے دو وزرائے اعظم کرپشن اور جنسی حملوں کے الزامات کے تحت سزا یافتہ ہیں۔ نیتن یاہو کے خلاف چلنے والے مقدمات اور حریف جماعتوں کے اتحاد کے تناظر میں یہ پیشین گوئی کی جا رہی تھی کہ اس بار نیتن یاہو کو برسر اقتدار آنے میں مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

قبل از انتخابات پولز کے مطابق نیتن یاہو کو اپنے حریفوں سے سخت مقابلے کا سامنا تھا۔ نیتن یاہو کو شکست دینے کے لیے ان کے حریفوں جو سابق فوجی بھی ہیں، نے ایک سیاسی اتحاد تشکیل دے رکھا تھا۔ اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ بینی گینٹز کی ریسیلینس پارٹی اور سابق وزیر خزانہ یائر لبید کی ییش اتید پارٹی نے 120 اراکین کے پارلیمنٹ کے انتخابات کے لیے امیدواروں کی مشترکہ فہرست تشکیل دی تھی۔ اس اتحاد کے مابین طے پایا تھا کہ جیت کی صورت میں حکومت کے ابتدائی اڑھائی سال کے دوران وزیراعظم بینی گینٹز ہوں گے، جبکہ بقیہ اڑھائی سال وزارت عظمیٰ کا منصب یائر لبید کے پاس ہوگا۔ لبید اور گینٹز کو عرب جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی، جس کو عنوان بنا کر نیتن یاہو کی پارٹی نے کمپین چلائی کہ عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا یا تو لیکوڈ یا پھر عرب جماعتوں کی حمایت یافتہ گینٹز اور لبید کی پارٹی۔ نیتن یاہو نے بھی اس انتخاب میں کامیابی کے لیے دائیں بازو کی تین شدت پسند چھوٹی جماعتوں کو یکجا کرنے کے واسطے بدھ کے روز ایک معاہدہ طے کیا تھا، تاکہ انتخابات کے بعد پارلیمانی بلاک کی نشستوں میں اضافہ کیا جا سکے۔

تازہ ترین نتائج کے مطابق 120 ركنی پارلیمنٹ میں لیکوڈ پارٹی نے 35 نشستیں حاصل کیں، اپنی چھوٹی حلیف جماعتوں کے ووٹ کو ملا کر برسر اقتدار لیکوڈ پارٹی کو پارلیمنٹ میں 65 نشستیں حاصل ہوگئیں، جو کہ مخالف جماعت پر 10 سیٹوں کی لیڈ کے ہدف سے کافی زیادہ ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں حکومت سازی کے لیے 61 نشستیں درکار ہیں، نیتن یاہو اپنی حلیف جماعتوں کے ساتھ یہ ہدف بآسانی حاصل کر لیں گے۔ اندرونی سیاسی حربوں کے علاوہ نیتن یاہو کی خارجہ حکمت عملی بالخصوص ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اقدامات نے بھی ان کی جماعت اور بذات خود نیتن یاہو کو کافی مدد کی۔ ایران کے ساتھ پانچ جمع ایک نیوکلیائی معاہدے کی منسوخی، ایران پر تازہ پابندیاں، امریکا کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا صدر مقام تسلیم کرنا اور اپنے سفارتخانے کی یروشلم منتقلی، گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی حق حاکمیت کو قبول کرنا، ایسے اقدامات ہیں جو اسرائیلیوں کی دیرینہ خواہشات تھیں۔ ان تمام اقدامات کا نیتن یاہو کے دور اقتدار میں ہونا اسرائیلیوں کی نظر میں نیتن یاہو کی کامیاب خارجہ پالیسی کے شواہد ہیں۔

عالمی امور کے ماہرین ان تمام اقدامات کے وقت بھی یہی تبصرہ کر رہے تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لیے جانے والے ان اقدامات کا مقصد نیتن یاہو کو انتخابات میں مضبوط بنانا ہے۔ یہ حکمت عملی کامیاب ہوئی اور نیتن یاہو تمام تر خدشات، کرپشن کے الزامات، مضبوط حریفون کے اتحاد کے باوجود پانچویں بار اسرائیل کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔ بعض اسرائیلی مبصرین کا خیال ہے کہ نیتن یاہو کی دوبارہ وزیراعظم تعیناتی اسرائیلی جمہوریت اور مسئلہ فلسطین کے مطلوبہ حل پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ نیتن یاہو کے دوبارہ بطور وزیراعظم انتخاب پر امریکا مین بھی ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مبارکباد دیتے ہوئے لکھا کہ نیتن یاہو کے دوبارہ انتخاب سے مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکی امن منصوبے کو بہتر موقع ملے گا، جبکہ امریکی ڈیموکریٹس اور ریپلیکنز کا خیال ہے کہ نیتن یاہو کے ہوتے ہوئے خطے میں امن ممکن نہیں۔

نیتن یاہو اور ان کی جماعت نے انتخابات میں کامیابی کے لیے مغربی کنارے کی آبادیوں کے اسرائیل سے الحاق کا اعلان کیا۔ بعض مبصرین کے مطابق اس اعلان پر پہلے ہی کام شروع ہوچکا ہے، جو کہ فلسطین کے دو ریاستی حل سے بالکل متصادم عمل ہے۔ اس انتخاب میں کامیابی کے لیے نیتن یاہو کو شدت پسند یہودی تنظیموں سے اتحاد کرنا پڑا، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس حکومت کا اگلا دور اقتدار فلسطینیوں کے لیے مزید پابندیاں اور سختیاں لے کر آئے گا۔ نیتن یاہو کو عدالتی کارروائی اور سزا سے بچانے کے لیے تخفیف کا ایک قانون بھی زیر غور ہے۔ اگر یہ قانون پارلیمنٹ سے پاس ہوتا ہے تو اس کے لیے نیتن یاہو کو شدت پسند صہیونیوں کو اقتدار میں زیادہ حصہ دینا ہوگا۔

اسرائیلی انتخابات اور ان میں نیتن یاہو کا دوبارہ برسر اقتدار آنا فلسطینی مسلمانوں، خطے میں اسرائیلی پالیسیوں اور اسرائیل کی دوسرے علاقوں میں خارجہ پالیسی کے تسلسل بلکہ اس میں شدت کا آئینہ دار ہے۔ یروشلم کا صدر مقام بننا، گولان پر امریکہ کا اسرائیلی حاکمیت کو قبول کرنا اور اب مغربی کنارے کا اسرائیل سے الحاق وہ اقدامات ہیں، جو اقوام عالم کے سامنے وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ اسرائیل قدم بہ قدم اپنے ہدف و مقصد کی جانب گامزن ہے اور اس کی راہ میں اب مقاومت کے سوا کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہے۔ اللہ کریم سے بہتر کی امید ہے، وہ ذات بڑے بڑے فرعونوں کا غرور ابابیلوں کے ذریعے خاک میں ملانے پر قادر ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …