جمعہ , 19 اپریل 2024

زوال، آل سعود سے دوستی کا انجام

(تحریر: علی احمدی)

آگ، دھواں، خون اور آخرکار سرنگونی سوڈان کے صدر عمر البشیر کا نصیب بن گئی۔ عمر البشیر کی حکومت ایک عرصے سے عوام میں محبوبیت اور قانونی جواز کھو چکی تھی۔ امریکہ، اسرائیل اور خطے میں اس کے اتحادی ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ حد سے زیادہ گٹھ جوڑ کے علاوہ مغربی ایشیا سے متعلق سوڈانی حکام کی غلط پالیسیاں بھی ملک میں وسیع سطح پر عوامی احتجاج اور اعتراضات کا باعث بنیں، جن کے نتیجے میں صدر عمر البشیر کو حکومت سے سبکدوش ہونا پڑ گیا۔ سوڈانی حکام کی جانب سے ماضی میں مغرب مخالف رجحانات، اخوان المسلمین کی طرف جھکاو اور مظلوم فلسطینی عوام سے حمایت کا اظہار عوام میں ان کی محبوبیت کا باعث بنا تھا اور سوڈانی عوام خود کو درپیش بے شمار مشکلات خاص طور پر معیشتی مسائل کو نظرانداز کرکے حکومت کی حمایت کا اعلان کرتے رہے۔ لیکن جیسے ہی صدر عمر البشیر نے امریکہ، اسرائیل اور خطے میں ان کی پٹھو حکومتوں کی جانب یوٹرن لیا تو عوام کی رائے بھی تبدیل ہوگئی۔ عمر البشیر جو اخوان المسلمین کے شدید حامی تھے، جیسے ہی سعودی عرب اور مغربی ممالک کی طرف جھکے، عوام نے ان کی حمایت ترک کرکے ان کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا۔

ایران کیجانب سے عمر البشیر کی حمایت
جس وقت مغربی طاقتوں نے صدر عمر البشیر کی حکومت پر شدید دباو ڈال رکھا تھا اور ہر لمحہ سوڈان میں مغرب کی فوجی مداخلت کا امکان پایا جاتا تھا، اسلامی جمہوریہ ایران نے ان کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر اور صدر دونوں نے کسی قسم کی بیرونی مداخلت کے مقابلے میں سوڈان کی مسلمان حکومت کی ہر ممکنہ مدد اور حمایت پر زور دیا۔ ایران پہلا ملک تھا جس نے سوڈان کے صدر عمر البشیر کو گرفتار کرنے کے فیصلے کی مذمت کی اور اس طرز عمل کو انتہائی خطرناک قرار دیا۔ ایران کی وزارت خارجہ کے اس وقت کے ترجمان حسن قشقاوی نے سرکاری طور پر موقف اختیار کرتے ہوئے اس فیصلے کی مذمت کی اور اسے سیاسی فیصلہ قرار دیتے ہوئے ممالک کی خود مختاری اور حاکمیت کے مخالف قرار دیا۔ مزید برآں، ایران نے بحرانی صورتحال میں سوڈان کی سفارتی مدد اور حمایت کرنے اور اسے بین الاقوامی سطح پر گوشہ نشینی سے باہر نکالنے کے علاوہ فوجی شعبے میں سوڈانی حکومت کو ٹیکنیکل، مشاورتی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

عمر البشیر کی دوست ممالک سے بے رخی
2014ء میں سوڈانی حکومت نے انتہائی عجیب اور غیر متوقع اقدام کے تحت شیعہ مذہب کی ترویج کا الزام عائد کرتے ہوئے سوڈان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام ثقافتی مراکز پر پابندی عائد کر دی۔ سوڈان کے وزیر خارجہ علی کرتی نے ان ثقافتی مراکز میں کام کرنے والے تمام افراد اور ثقافتی اتاشی کو 72 گھنٹے کے اندر ملک چھوڑنے کی وارننگ جاری کر دی۔ سوڈان کے صدر عمر البشیر نے 11 اکتوبر 2014ء کے دن اخبار الشرق الاوسط کو انٹرویو دیتے ہوئے ملک میں ایران کے ثقافتی مراکز بند کئے جانے کی حمایت کرتے ہوئے اسے ایک اسٹریٹجک اقدام قرار دیا اور کہا کہ وہ سوڈان میں شیعہ مذہب کی ترویج کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے سعودی حکام تک پہنچنے والی ایران اور سوڈان کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات پر مبنی خبروں کو جھوٹی قرار دیتے ہوئے کہا: "اس بارے میں سعودی فرمانروا کو جو بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں وہ غلط، جعلی اور بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی تھیں۔ ہماری جانب سے ایران کے ثقافتی مراکز پر پابندی حقیقت کو واضح طور پر عیاں کر رہی ہے۔”

سوڈان کے صدر عمر البشیر نے آل سعود کے مقابلے میں کمزوری اور چاپلوسی کی انتہا کرتے ہوئے سعودی حکام سے درخواست کی کہ وہ سوڈان اور ایران کے درمیان دوستانہ تعلقات پر مبنی افواہوں پر توجہ نہ دیں۔ انہوں نے کہا: "ہمارے ایران سے کسی قسم کے اسٹریٹجک تعلقات استوار نہیں ہیں۔ ایران سے ہمارے تعلقات انتہائی معمولی سطح کے ہیں۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ بعض حلقے ایران سے ہمارے تعلقات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا چاہتے ہیں اور اسے حقیقت سے ہٹ کر ظاہر کر رہے ہیں۔ وہ قوتیں جو برادر خلیجی ریاستوں سے سوڈان کے تعلقات بگاڑنے کے درپے ہیں، ایران سے ہمارے تعلقات کے بارے میں غلط معلومات شائع کر رہی ہیں۔”

مظلوم یمنی عوام کے خون میں آلودہ ہاتھ
آل سعود رژیم کی جانب سے یمن کے خلاف "فیصلہ کن طوفان” نامی ظالمانہ فوجی آپریشن کے تحت ہوائی حملوں کے ذریعے عام شہریوں کا قتل عام شروع ہونے کے بعد سوڈان وہ پہلا ملک تھا جو سب سے پہلے سعودی عرب کی سربراہی میں تشکیل پانے والے جارح عرب اتحاد میں شامل ہوا۔ یمن کے خلاف سعودی جارحیت کے آغاز کے دوسرے روز ہی سوڈان کے صدر عمر البشیر نے اخبار الشرق الاوسط کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "یمن میں فوجی مداخلت انتہائی ضروری تھی اور اس میں مزید دیر نہیں کرنی چاہیئے تھی۔” عمر البشیر نے سیاسی نادانی کا ثبوت دیتے ہوئے انتہائی گستاخی سے سعودی عرب کے کھوکھلے دعووں کے لالچ میں آ کر اسلامی جمہوریہ ایران سے جاری دوستانہ تعلقات منقطع کر دیئے۔ اسی سال وکی لیکس کی جانب سے فاش ہونے والی ایک دستاویز کی روشنی میں یہ خبر سامنے آئی کہ سعودی عرب نے سوڈان کو ایران سے تعلقات منقطع کرنے کے بدلے 1 ارب ڈالر مالی امداد کا وعدہ کیا تھا۔ بعض باخبر ذرائع کے مطابق سعودی حکومت کی جانب سے سوڈان کے اسٹیٹ بینک میں 4 ارب ڈالر منتقل کئے گئے تھے، جس کے باعث ڈالر کے مقابلے میں سوڈان کی کرنسی قدرے مضبوط ہوگئی تھی۔

عمر البشیر کو ولی امر مسلمین امام خامنہ ای کی وارننگ
1990ء میں سوڈان میں انقلاب آنے کے بعد عمر البشیر سوڈان کی انقلاب کونسل کے سربراہ تھے۔ اسی سال عمر البشیر نے اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ امام خامنہ ای نے اس ملاقات میں انقلاب کی کامیابی کا سبب انقلابی رہنماوں کی جانب سے اسلامی شریعت لاگو کرنے کا عہد بیان کرتے ہوئے کہا کہ مغربی طاقتوں کی جانب سے نئی انقلابی حکومت پر دباو کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر نے عمر البشیر کو نصیحت کی کہ عوام کی جانب سے ان کی بھرپور حمایت کا راز الہیٰ قوانین کا اجراء ہے۔ اسی طرح 1997ء میں بھی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے سوڈان کے سابق صدر عمر البشیر سے ملاقات کے دوران سوڈان کے جنوبی علاقوں میں صہیونزم کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا: "اگر صہیونی جنوبی سوڈان میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ عالم اسلام کیلئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا۔”

کچھ ہی عرصے بعد اسرائیل کی صہیونی رژیم نے سوڈان کی پشت میں خنجر گھونپتے ہوئے جنوبی سوڈان کو علیحدہ کرکے اپنے اتحادی ملک میں تبدیل کر دیا۔ اس واقعے کے دو سال بعد جب ولی امر مسلمین امام خامنہ ای کی سوڈان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے دوبارہ اسے خبردار کیا اور کہا کہ عالمی استعماری قوتوں کی جانب عارضی جھکاو اس کی دشمنی ختم ہونے کا باعث نہیں بن سکتا اور امریکہ جیسی استعماری طاقت دیگر ممالک پر مکمل تسلط سے کم پر راضی نہیں ہوتی۔ اسی طرح 2006ء میں امام خامنہ ای نے ایک بار پھر اس بات پر تاکید کی کہ سوڈان کی طاقت، ملکی سالمیت اور مغربی طاقتوں کے مقابلے میں اپنی خود مختاری برقرار رکھنے میں مضمر ہے۔ انہوں نے سوڈان کے صدر عمر البشیر کو نصیحت کی کہ وہ اپنے ملک میں موجود وسیع انسانی اور قدرتی وسائل سے درست استفادہ کرتے ہوئے استعماری طاقتوں کے مقابلے میں مزاحمت اور استقامت کا مظاہرہ کریں اور مغربی طاقتوں میں مسلمانوں پر دباو ڈالنے اور اپنی دھونس جمانے کی جرات نہیں ہے۔

ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای نے 2011ء میں بھی اپنے 20 سالہ پرانے موقف کو دہراتے ہوئے اسلام کا اجراء، وحدت کے فروغ اور مغرب کے مقابلے میں خود مختاری کو طاقت کے تسلسل کا راز قرار دیا۔ لیکن آئندہ چند برس میں عمر البشیر کی حکومت نے یہ سنہری اصول فراموش کر دیئے۔ شاید امام خامنہ ای کے ساتھ عمر البشیر کی آخری ملاقات اس حوالے سے اہم ترین قرار دی جا سکتی ہے، جس دوران عمر البشیر نے آہستہ آہستہ یوٹرن لے کر مغربی طاقتوں کی طرف جھکاو اور سعودی عرب سے اتحاد کا آغاز کر دیا تھا۔ امام خامنہ ای نے اس ملاقات میں اسلامی ممالک کے خلاف منحوس سازشیں کرنے والی قوتوں کے مقابلے میں ہوشیاری سے کام لینے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہیئے کہ کہیں صورتحال کو صحیح انداز میں درک کرنے میں غلطی کا شکار نہ ہو جائیں۔

امام خامنہ ای نے ہمیشہ سوڈان کی عوام کے مسلمان اور محب اہلبیت علیہم السلام ہونے پر زور دیا ہے اور عمر البشیر کو اسلامی رجحانات ترک کرنے، مغرب کے مقابلے میں خود مختاری برقرار نہ رکھنے اور ملک میں تفرقہ ڈالنے پر خبردار کیا ہے۔ عمر البشیر نے جب تک ان اصولوں کی اگرچہ انتہائی کمزور حد تک ہی سہی، پابندی کی، ان کی طاقت میں اضافہ ہوا، لیکن جیسے ہی انہیں پس پشت ڈال کر یمن کی مظلوم عوام کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے لگا اور مغربی طاقتوں اور خطے میں ان کی پٹھو حکومتوں کی پیروی کی تو اس کا زوال شروع ہوگیا اور آخرکار سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ہاتھوں ہی سرنگون ہوگیا۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …