ہفتہ , 20 اپریل 2024

لیبیا کی خانہ جنگی میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کا کردار

( تحریر: علی احمدی)

اقوام متحدہ کے اراکین لیبیا میں کئی سالوں کی بدامنی اور خانہ جنگی کے بعد اب اس امید کا اظہار کرنے لگے تھے کہ مخالف دھڑوں میں مفاہمت کا امکان پیدا ہو گیا ہے اور بہت جلد ملک کے تمام سیاسی گروہ قومی حکومت کی تشکیل اور آئندہ الیکشن کی منصوبہ بندی کیلئے مذاکرات کی ٹیبل پر ہوں گے۔ ابھی یہ باتیں کی جا رہی تھیں کہ سابق ڈکٹیٹر معمر قذافی دور کا 75 سالہ فوجی کمانڈر خلیفہ حفتر نے دارالحکومت طرابلس پر فوجی طاقت کے ذریعے قبضہ جمانے کی کوششیں شروع کر دیں جس کے باعث امن قائم کرنے کی تمام کوششیں ضائع ہو گئیں اور ملک ایک بار پھر تباہ کن خانہ جنگی کی لپیٹ میں چلا گیا۔ یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنرل حفتر کی جانب سے اس نتیجے تک پہنچنے کا سبب کیا ہے کہ انہیں امن مذاکرات کی بجائے فوجی طاقت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے؟ گذشتہ چند دنوں میں اس سوال کا جواب کافی حد تک واضح ہو چکا ہے۔ دارالحکومت طرابلس پر فوجی آپریشن میں جنرل خلیفہ حفتر کو سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔

جنرل خلیفہ حفتر گذشتہ کئی سالوں سے ان عرب ممالک کے علاوہ فرانس کی حمایت سے بھی برخوردار رہے ہیں۔ ان ممالک نے اس وقت بھی ان کی بھرپور حمایت کی جب ان کے زیر قبضہ علاقے مشرقی لیبیا تک محدود تھے اور انہوں نے طرابلس میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کے مقابلے میں ایک دوسری حکومت قائم کر رکھی تھی۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق جنرل خلیفہ حفتر نے دارالحکومت طرابلس پر فوجی حملے سے چند دن پہلے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور سعودی حکمرانوں نے انہیں اس آپریشن کے بدلے کئی ملین ڈالر دینے کا عندیہ دیا تھا۔ یہ پیسے درحقیقت لیبیا کے قبائلی عمائدین کو رشوت دے کر نئے جنگجو بھرتی کرنے کیلئے تھے۔ یہ اقدام سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے ایک اور جوا ہے جو وہ پہلے یمن کے خلاف جنگ اور لبنانی اور قطری حکومتوں کو اپنا مطیع بنانے کیلئے کھیل چکے ہیں۔ اسی طرح جنرل خلیفہ حفتر قاہرہ بھی گئے اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کو بھی اپنے منصوبوں سے آگاہ کیا اور انہیں اعتماد میں لیا۔ عبدالفتاح السیسی جنرل خلیفہ حفتر سے ملاقات کے چند دن پہلے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مل کر آئے تھے۔ انہوں نے وائٹ ہاوس کی جانب سے جنرل خلیفہ حفتر سے اپنا فوجی آپریشن روک دینے کی درخواست پر بھی کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

موجودہ حالات میں جنرل خلیفہ حفتر کا فوجی آپریشن نتیجہ خیز ثابت ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ان کے اس فوجی آپریشن کے باعث لیبیا کے دیگر مسلح گروہ بھی سرگرم عمل ہو چکے ہیں اور ایک نئی صف آرائی سے سامنے آ رہے ہیں۔ تجربہ کار گوریلے اور کمانڈوز ملک کے دیگر علاقوں سے طرابلس کی طرف امڈ آئے ہیں تاکہ جنرل خلیفہ حفتر کے فوجی حملے کا مقابلہ کر سکیں۔ جنرل خلیفہ حفتر کے حامی حلقوں نے دعوی کیا ہے کہ ان کے خلاف صف آرا عناصر ایسے شدت پسند گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں اقوام متحدہ غیر قانونی قرار دے کر ان پر پابندیاں عائد کر چکی ہے۔ لیکن بہت جلد یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آ گئی کہ جنرل خلیفہ حفتر کی فوج میں بھی ایسے افراد شامل ہیں جنہیں عالمی ادارے جنگی مجرم قرار دے چکے ہیں جبکہ سعودی عرب کے حمایت یافتہ مذہبی شدت پسند عناصر بھی ان کی رکاب میں لڑ رہے ہیں۔

لیبیا میں شروع ہونے والی حالیہ خانہ جنگی کا نتیجہ ملک اور قوم کو مزید نقصان پہنچانے کے سوا کچھ اور نہیں ہو گا۔ اب تک کی خانہ جنگی میں ہزاروں لیبیائی وطن چھوڑ کر دیگر ممالک میں پناہ حاصل کر چکے ہیں۔ لیبیا میں دوبارہ جنگ کی آگ روشن ہونے کے نتیجے میں ایک طرف تو یورپی ممالک میں پناہ گزین افراد کے سیلاب میں اضافہ ہو گا جبکہ دوسری طرف اس ملک میں داعش جیسے تکفیری شدت پسند گروہوں کی سانسیں دوبارہ بحال ہونے کا امکان بڑھ جائے گا۔ یہ تمام صورتحال ان عرب ممالک کی مداخلت کی بدولت پیدا ہوئی ہے جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ خطے میں اپنا قریبی اور بااعتماد اتحادی قرار دیتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اکثر ایسے اتحادیوں کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں جو امریکی مدد اور حمایت سے تو برخوردار ہیں لیکن امریکہ کو ان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ اگر وہ آنکھیں کھول کر حقائق کا اچھی طرح جائزہ لیں تو انہیں اپنے ایسے اتحادیوں کی زندہ مثالیں لیبیا کے میدان جنگ میں دکھائی دے سکتی ہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …