جمعہ , 19 اپریل 2024

ایران سے تجارت و تعلقات میں کون حائل ہے؟

(رحمت خان وردگ)

جنرل پرویز مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے اور واپسی پر ایک دن ایران کا دورہ کرکے ملک میں واپس آئے تھے۔ ایران نے 3ماہ کے کریڈٹ پر پیٹرولیم مصنوعات دینے کی آفر کی تو مشرف نے کابینہ کی منظوری سے ایران سے پیٹرولیم مصنوعات 3ماہ کے کریڈٹ پر لینا شروع کیں اور امریکی دباؤ کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ایران حالانکہ ایٹمی قوت نہیں ہے لیکن امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈا ل کر ہمیشہ بات کرتا ہے۔ بھارت کو ایران سے تجارت میں کوئی رکاوٹ نہیں اور بھارت وایران کی باہمی تجارت میں امریکہ بھی حائل نہیں لیکن پاکستان کو بلاوجہ ایران سے تجارت سے باز رکھا جاتا ہے اور ہماری قیادت نے بھی ہمیشہ امریکی دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیکے۔

مشرف خام تیل ایران سے منگواکر مقامی ریفائنریز سے سے ریفائن کرکے آئل مارکیٹنگ کمپنیز کے ذریعے ملک بھر میں فروخت کرکے ایران کو 3ماہ بعد ادائیگی کرتے رہے۔ اس طرح کرنے سے ایرانی ڈیزل و پیٹرول کی فروخت صرف بلوچستان کے کچھ علاقوں تک محدود رہی جس پر حکومت کو کوئی بھی ٹیکس نہیں ملتا لیکن ملک بھر میں آئل ریفائنریز اپنی 100%پیداوار پر چلتی رہیں اور حکومت کو بھاری ٹیکس ملتے رہے اور قومی خزانے پر بھی ادائیگیوں کا بوجھ نہیں پڑا اور مستحکم معاشی حالات رہے۔ پھر آصف زرداری کی حکومت نے اپنے آخری چند ماہ میں انقلابی اور جرات مندانہ فیصلہ کرکے ایران گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا او رامریکی دباؤ کو پس پشت ڈال کر اس منصوبے پر تیزی سے کام کا آغاز ہوا۔ ایران نے اپنی حدود میں گیس پائپ لائن کئی سال سے مکمل کرلی ہے لیکن گزشتہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 5سال میں امریکی دباؤ پر ایران گیس پائپ لائن کا ذکر تک نہیں کیا اور اب تبدیلی سرکار کے بقول وہ کبھی امریکی ڈکٹیشن پر فیصلے نہیں کریں گے، لیکن 8ماہ کی حکومت میں موجودہ حکومت نے بھی ایران گیس پائپ لائن کا کوئی ذکر نہیں کیا حالانکہ ایران کہہ چکا ہے کہ اگر پاکستان کہے تو پاکستانی حدود میں بھی گیس پائپ لائن ہم مکمل کرکے دینے کو تیار ہیں۔ اب کچھ دنوں قبل خبر آئی ہے کہ تاجکستان سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا جائیگا۔ حیرت کی بات ہے کہ ایران گیس پائپ لائن پاکستانی سرحد تک آکر کئی سال سے رکی ہوئی ہے‘ اس پائپ لائن کو مکمل کرنے کی بجائے تاجکستان سے معاہدے کی باتیں ہورہی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سعودی عرب ‘ متحدہ عرب امارت سمیت دیگر ممالک کے دورے کئے لیکن سب سے بڑی غلطی یہ کی ہے کہ اب تک ایران کا دورہ نہیں کیا اور اب میرے خیال میں جب عرب ملکوں نے پیٹرولیم مصنوعات کی کریڈٹ پر فراہمی کے وعدے کو وفا نہیں کیا اور قومی خزانے کی بدتر حالت کے باعث اب حکومت کے پاس پیٹرولیم مصنوعات کی خریداری کیلئے بھی معاشی مشکلات کا سامنا ہے تو اب حکومت کو ایران کی یاد آئی ہے اور اب وزیراعظم عمران خان ایران کا دورہ کرنے جارہے ہیں حالانکہ ہمیں امریکہ سمیت کسی کی بھی ڈکٹیشن نہیں لینی چاہئے اور عرب ملکوں سے جس قدر مستحکم تعلقات اور اہمیت ہے اسی طرح کے تعلقات اور اہمیت ایران کو بھی دینی چاہئے اور ہر صورت ایران سے فوری طور پر گیس پائپ لائن منصوبے کو تیزی سے مکمل کرنا چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ ایران سے 3ماہ کے کریڈٹ پر فوری طور پر خام تیل کی درآمد شروع کرنی چاہئے تاکہ پیٹرولیم مصنوعات کی خریداری کا قومی خزانے پر بوجھ کم ہوسکے اور برادر اسلامی ملک ایران نے ہمیشہ پاکستان کو کریڈٹ پر خام تیل دینے اور باہمی ہر طرح کی تجارت کیلئے خوش آمدید کہا ہے لیکن ہماری قیادت نے امریکی ڈکٹیشن پر ایران سے تجارت و دیگر معاہدے نہیں کئے۔وزیراعظم عمران خان کو چاہئے کہ ایران سے باہمی تجارت کے زیادہ سے زیادہ معاہدے کرکے باہمی تجارت کو فروغ دیں اور اپنے دعوؤں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے کسی بھی قسم کے امریکی دباؤ کو یکسر مسترد کرکے ایران سے زیادہ سے زیادہ تجارت کا آغاز کرنا چاہئے اور ایران سے مقامی کرنسی میں تجارت ممکن ہے کیونکہ اس وقت جب حکومتی سطح پر ایران سے تجارت نہیں ہورہی تب بھی ایرانی ڈیزل اور پیٹرول پورے ملک میں کھلے عام فروخت ہورہا ہے جو یقیناً ایران سے مقامی کرنسی میں ہی خریدا جاتا ہے اور ملک بھر میں سپلائی ہورہا ہے جو تمام پیٹرول پمپوں پر پاکستانی ریٹ پر فروخت کیا جارہا ہے لیکن حکومت کو اس مدمیں کوئی ٹیکس بھی نہیں مل رہا اور مقامی ریفائنریز کی کی پروڈکشن اور آئل مارکیٹنگ کمپنیز کی آمدن بھی بہت کم ہوچکی ہے۔ اگر ایرانی ڈیزل و پیٹرول ہی ملک بھر میں فروخت ہونا ہے تو پھر حکومت سرکاری طور پر اس کی درآمد کرکے کیوں نہیں لاتی جس سے قومی خزانے میں بھاری ٹیکس تو آتے رہیں گے جو یومیہ اربوں روپے تک ہوتے ہیں۔مشرف نے اپنے پورے دور حکومت میں ایران سے خام تیل خریدا اور کبھی کسی قسم کا بحران پیدا نہیں ہوا۔

ایران سے شاید معاہدے اس لئے نہیں کئے جاتے کہ وہاں کمیشن نہیں ہوگی کیونکہ بدقسمتی سے پاکستان کے صاحب اختیار اس وقت تک معاہدے نہیں کرتے جب تک انہیں مستقل کمیشن نہ ملتی ہو۔ اگر ایران گیس پائپ لائن فوری مکمل نصب کرلی جائے تو ایل این جی یا کسی اور قسم کی مہنگی گیس کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بے شک تاجکستان سے گیس پائپ لائن معاہدہ کریں لیکن ایران گیس پائپ لائن جو ایران کی حدود میں مکمل ہوکر رکی ہوئی ہے خدارا اسے جلد ازجلد مکمل کرنے کی طرف توجہ دیں۔ایران ہمارا برادر اسلامی ملک اور پڑوسی ہے اور ہمیشہ پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے ۔ ایران جب بھارت جیسی کٹرہندو ریاست کو تجارت میں بہت رعایتیں دے رہا ہے تو پاکستان کو تو باہمی تجارت میں بہت زیادہ فائدہ پہنچے گا کیونکہ دونوں ملکوں کی سرحدیں آپس میں ملی ہوئی ہیں اور روڈ ٹرانسپورٹ سے تجارت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیکر مقامی کرنسی میں ادائیگیوں کے معاہدے کرکے زرمبادلہ کے ذخائر پر ادائیگیوں کے غیر ضروری بوجھ کو بہت حدتک کم کیا جاسکتا ہے۔صرف ایران ہی نہیں بلکہ تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ پاکستان کو مثالی تعلقات قائم کرکے تجارت کو فروغ دینا ہوگا۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …