ہفتہ , 20 اپریل 2024

قومی اداروں کی تباہی کے ذمے دار

(ظہیر اختر بیدری)

عشروں بعد ہی سہی حکمران طبقے کو ضروری کاموں کا خیال تو آیا ہے، تھرکول کا منصوبہ ایک طویل عرصے سے میڈیا میں آتا رہا ہے لیکن کسی حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس منصوبے پر کام شروع کرے، اب جا کرکہیں اس منصوبے کی قسمت کھلی ہے اور اس کا افتتاح کیا گیا ہے۔

یہ پہلا تھرکول پاور جنریشن پلانٹ ہے 60 برس تک 6 ہزار میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔ اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ 30 جون سے پہلے 660 میگاواٹ بجلی کی کمرشل پیداوار شروع ہوجائے گی۔ اس منصوبے کا آغاز ہوا یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن یہ کام عشروں پہلے بھی کیا جاسکتا تھا لیکن حکومتوں کی نااہلی کی وجہ یہ کام پہلے نہیں ہوسکا۔ پاکستان کے عوام برسوں سے نہیں عشروں سے بجلی کی قلت کا شکار ہیں، اس کا ریڈی میڈ حل یہ نکالا گیا کہ لوڈ شیڈنگ شروع کردی گئی، موسم گرما میں آج بھی کراچی جیسے بڑے اور کمرشل شہر میں 7 سے 10 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔

جن حکومتوں میں احتساب کا نظام نہیں ہوتا،ان ملکوں کے حکمرانوں کو عوامی مسائل عوامی تکلیف کا سرے سے خیال ہی نہیں ہوتا اگر تھرکول منصوبہ فرض کیجیے دس سال لیٹ ہوگیا ہے تو کیا ان دس برسوں کے درمیان کسی ادارے نے متعلقہ حکام سے جواب طلب کیا؟ کیا اس دیری کی کسی کو سزا دی گئی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب لیا جانا چاہیے۔ جانے ایسے کتنے منصوبے ہیں جو پینڈنگ میں پڑے ہوئے ہیں جن کا کوئی پر سان حال ہی نہیں۔

شاہی اور آمرانہ حکومتوں میں چونکہ حکمران عوام کو جواب دہ نہیں ہوتے، لہٰذا ان حکومتوں میں اگر کاہلی کے مظاہرے کیے جاتے ہیں تو ان بداعمالیوں کا کوئی نہ کوئی جواز پیش کیا جاتا ہے لیکن یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ عوام کی منتخب جمہوری حکومتوں میں اتنی بڑی کاہلی اور غیر ذمے داری کے مظاہرے کیے جا رہے ہیں اور عوام کے منتخب نمایندے منہ میں گھگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ اس منصوبے کے افتتاح کی خوشی میں ’’ کسی کو ‘‘ یاد نہیں رہتا کہ یہ منصوبہ کس قدر لیٹ ہوگیا ہے۔ اس قسم کی بدعنوانیوں یا نالائقیوں کا سبب یہ ہے کہ عوام کے منتخب نمایندوں کی ترجیحات ہی بدل دی گئی ہیں اور سب سے اولین ترجیح یہ ہوگئی ہے کہ کم سے کم عرصے میں کس طرح زیادہ سے زیادہ لوٹ مارکا بازار گرم کیا جائے؟

کہا یہی جاتا ہے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے لیکن اس ملک میں جمہوریت صرف اخباروں اور ٹی وی میں نظر آتی ہے جس میں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ حکمران طبقات کے ارشادات عالیہ چھاپے جاتے ہیں، ہمارے حکمرانوں کی نااہلی کے کئی ثبوت ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا ثبوت اسٹیل ملز ہے جو برسوں سے بند ہے اور مزدور بے کار بیٹھے ہوئے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر برسوں سے اسٹیل ملز کیوں بند ہے اور افسران بغیر کام کے بھاری بھاری تنخواہیں کیوں اور کیسے لے رہے ہیں؟

مشیر صنعت و تجارت رزاق داؤد نے اسٹیل ملز کی بحالی کے مسئلے پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ حکومت اسٹیل ملز نہیں چلا سکتی 2015ء میں اسٹیل ملزکو باقاعدہ طریقے سے بند نہیں کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اسٹیل ملز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلنا چاہیے۔ رزاق داؤد نے کہا کہ اسٹیل ملز قومی اثاثہ ہے اس کی نجکاری نہیں ہونی چاہیے۔ رزاق داؤد نے کہا کہ آیندہ ایکسپرٹ گروپ کی رائے کو ای سی سی میں پیش کرکے اسٹیل ملزکو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلانے کی منظوری لی جائے گی۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ تین روسی اور تین چائنیز کمپنیوں نے اسٹیل ملز میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ مسئلہ موجودہ حکومت کا نہیں بلکہ ان سابقہ نااہل حکومتوں کا ہے جن کے سامنے اسٹیل ملز تباہ ہوتا رہا اور ان حکومتوں نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھنا گوارا نہیں کیا۔

اسٹیل ملز ایک بہت بڑا قومی ادارہ ہے جو ہماری اسٹیل کی ضرورتوں کو پورا کرتا رہا ہے، اس قومی اہمیت کے ادارے کو ماضی کی کسی حکومت نے بحال کرنے کی کوشش نہیں کی، اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو اسٹیل ملز کا چیئرمین مقرر کیا جاتا رہا۔ پی آئی اے ایک انتہائی اہم قومی ادارہ ہے جو اربوں روپے کے نقصان میں جا رہا ہے اور یہاں وہی سلسلہ جاری ہے جو اسٹیل ملز میں جاری رہا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قومی اہمیت کے اہم اداروں کو اس حال میں پہنچانے والے کون ہیں اور ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھ کر بے دردی سے اس کا استحصال کرنے والے کون لوگ ہیں؟ ان کے خلاف کیا کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں؟

اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ماضی کی تمام حکومتوں نے اہم قومی اداروں کی مٹی پلید کی۔ ان اداروں کی تباہی میں ہماری نام نہاد جمہوریت کا بڑا دخل ہے اس جمہوریت کے چیمپئینوں نے اقتدار ملتے ہی ایسی پالیسیاں اختیار کیں کہ منافع بخش ادارے اربوں کے نقصان میں آکر تباہ ہوتے رہے، کوئی پرسان حال نہیں رہا۔ اسٹیل ملز کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ اس ادارے میں ضرورت سے زیادہ ملازمین رکھے گئے جن کی تنخواہوں کا بھاری بجٹ بھی ان اداروں کی تباہی کا سبب بنا۔ اب پی آئی اے کے حوالے سے بھی یہ شکایت عام ہے کہ اس ادارے میں بھی ضرورت سے بہت زیادہ ملازمین رکھے گئے ہیں۔

پی آئی اے ایک ایسا پرکشش ادارہ ہے کہ ہر شخص اس ادارے میں ملازمت کا خواہاں رہتا ہے، اس ادارے کی اہمیت اور ٹھاٹ باٹھ کی وجہ یہاں معمولی لوڈر کی نوکری کے لیے وزرا کی سفارشیں لائی جاتی ہیں۔ یہ قومی ادارہ بھی اربوں روپوں کے نقصان میں جانے کی اطلاعات ہیں، ابھی تک یہ ادارہ بند تو نہیں ہوا لیکن جس طرح اسے چلایا جا رہا ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس کے بند ہونے کے امکانات موجود ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت میں وہ خونخوار لوگ موجود نہیں جو اشرافیائی حکومتوں میں شامل رہتے تھے ، عمران خان مجموعی طور پر پاکستان کو ماضی کی اشرافیائی حکومت کی نااہلیوں اور لوٹ مار سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کی ذمے داری ہے کہ وہ اسٹیل ملز اور پی آئی اے کو اس حال میں پہنچانے والوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کریں۔بشکریہ ایکسپریس نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …