جمعہ , 19 اپریل 2024

سری لنکا میں خون کی ہولی

(رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ)

امریکہ کی طرف سے شروع کی گئی دہشت گردی کیخلاف جنگ کی وجہ سے پوری دنیا دہشت گردی کے عفریت میں مبتلا ہے۔ نیوزی لینڈ اور بلوچستان میں ہونیوالے المناک واقعات کے زخم ابھی تازہ تھے کہ سری لنکا میں ایسٹر کے دن گرجا گھروں میں مصروف مسیح عبادت گزاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ عشروں سے جاری دہشت گردی کے کئی محرکات ہیں، شدت پسندی، انتہاء پسندی کو مذہبی جنونیت سے جوڑا جاتا ہے، لیکن بالآخر ان پرتشدد واقعات کے مقاصد سیاسی ہی ہوتے ہیں اور زیادہ تر سیکولر یعنی لادین عناصر کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ پھر بھارت، غاصب صہیونی ریاست اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے مسلسل ریاستی دہشت گردی نے دنیا کا امن تباہ کرنے میں بنیاد کردار ادا کیا ہے۔

سری لنکا میں مسلمانوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، اسی طرح مسیحیوں کو بھی مسلسل تنگ کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ حالیہ حملوں میں سب سے بڑی یکسانیت یہ سامنے آئی ہے کہ ان میں تامل مسیحی افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ کولمبو بندرگاہ کے نزدیک ایک اجتماع گاہ میں قائم سینٹ انتھونی کیتھولک چرچ پہلا مقام تھا، جہاں دھماکہ ہوا اور اس وقت بڑی تعداد میں تامل افراد وہاں کا رخ کر رہے تھے۔ جس کے بعد کولمبو سے 35 کلومیٹر دور اور سیاحوں میں مقبول مقام نیگومبو میں قائم چرچ سینٹ سیبسٹین اور اس کے بعد کریسچیئن زائن کو حملے کا نشانہ بنایا گیا، جہاں زیادہ تر تامل اور مسلمان آبادی ہے۔

سری لنکا میں بدھ مذہب کو ماننے والوں کی اکثریت ہے اور بہت کم تعداد میں کیتھولک آباد ہیں، لیکن مذہب نسل کے اعتبار سے متحد کرنے والی قوت ہے، کیونکہ وہاں آباد مسیحیوں میں تامل اور سنہالہ دونوں اقوام کے افراد شامل ہیں۔ سری لنکا میں 200 گرجا گھروں اور مسیحی تنظیموں کی نمائندگی کرنے والی جماعت نیشنل کریسچیئن ایونجیلک الائنس آف سری لنکا (این سی ای اے ایس ایل) کے مطابق گذشتہ برس مسیحیوں کے خلاف دھمکانے، تشدد اور امتیازی سلوک کے تقریباً 86 مصدقہ واقعات رونما ہوئے۔ دوسری جانب اس برس این سی ای اے ایس ایل اب تک ایسے 26 واقعات ریکارڈ کرچکی ہے۔

جس میں سے 25 مارچ کو رونما ہونے والے واقعے میں ایک بدھ راہب نے مبینہ طور پر اتوار کو ہونے والی مذہبی تقریب کو خراب کرنے کی کوشش کی تھی۔ 2012ء میں کی گئی مردم شماری کے مطابق سری لنکا کی کل آبادی تقریباً 2 کروڑ 20 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جس میں 70 فیصد بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والے، 12 فیصد ہندو، 9.7 فیصد مسلمان اور 7.6 فیصد مسیحی افراد شامل ہیں۔ 2018ء میں سری لنکا میں انسانی حقوق کے حوالے سے ایک رپورٹ میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے نشاندہی کی تھی کہ کچھ مسیحی گروہوں اور گرجا گھروں کی جانب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکام کی جانب سے ان کے مذہبی اجتماع کو غیر قانونی اجتماعات قرار دے کر عبادت روکنے کی کوشش کی گئی۔

سری لنکا میں ہونیوالے دھماکوں کے بعد کرفیو لگا دیا گیا تھا، سلسلہ وار بم دھماکوں کے الزام میں اب تک 13 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جس کے نتیجے میں کم از کم 290 افراد ہلاک جبکہ 500 افراد زخمی ہوگئے تھے، سری لنکن حکام نے بم دھماکوں کے فوری بعد لگایا جانے والا مختصر کرفیو پیر کی صبح اٹھا لیا، تاہم اب تک کسی بھی گروہ یا تنظیم نے ان منظم دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ دھماکوں کے بعد مذہب کی بنیاد پر فسادات کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا، پولیس کے مطابق اتوار کی رات کو شمال مغربی علاقے میں ایک مسجد پر پیٹرول بم حملہ کیا گیا جبکہ مسلمان افراد کی 2 دکانوں کو آگ لگانے کی کوشش بھی کی گئی۔

دوسری جانب سری لنکن وزیراعظم رانیل وکراما سنگھے نے اس بات کی تصدیق کی کہ حکومت کو پہلے ہی ایک غیر معروف مسلمان گروہ کی جانب سے مسیحی عبادت گاہوں پر متوقع حملے کی اطلاع مل گئی تھی، لیکن ان کے وزراء نے انہیں اس بارے میں آگاہ نہیں کیا۔ پولیس ذرائع نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کولمبو میں 2 مقامات سے اب تک 13 افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے، تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہ بتاتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ گرفتار ملزمان کا تعلق ایک ہی گروہ سے ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 8 میں سے کم از کم 2 دھماکے خودکش تھے جبکہ ایک مکان پر چھاپہ مار کر دھماکہ خیز مواد ناکارہ بنانے کی کوشش میں بھی 3 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔

حکام نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں 32 غیر ملکی شامل ہیں، جن میں 5 بھارتی، 3 برطانوی، 2 ترکی اور ایک پرتگال کا شہری جبکہ 2 افراد کے پاس برطانیہ اور امریکا دونوں ممالک کا پاسپورٹ تھا۔ اس کے علاوہ سری لنکن دفتر خارجہ کے حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ 9 غیر ملکی افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ہے، تاہم 25 ایسے افراد کی لاشیں بھی موجود ہیں، جن کی اب تک شناخت نہیں ہوسکی اور ممکنہ طور پر وہ غیر ملکی ہیں۔ اس ضمن میں پولیس ترجمان روان گناسیکرا نے بتایا کہ پولیس اس حوالے سے تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا تمام دھماکوں کی نوعیت خودکش تھی یا نہیں۔

قبل ازیں سری لنکن حکومت کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ دھماکوں میں غیر ملکی عناصر کے ملوث ہونے کے حوالے سے بھی تفتیش کی جائے گی۔ دوسری جانب وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ عارضی طور پر معطل کی جانے والی سماجی روابط کی ویب سائٹس کو اب اس وقت تک بند رکھا جائے گا، جب تک حکومت گرجا گھروں اور ہوٹلوں میں ہونے والے بم دھماکوں کی تفتیش میں کسی نتیجے تک نہیں پہنچ جاتی۔ مذکورہ دھماکوں نے سری لنکا میں 26 سال تک جاری رہنے والی پر تشدد خانہ جنگی کے بدترین دور کی یاد تازہ کر دی، جس میں تامل باغیوں نے بدھ اکثریت کے حامل ملک سے آزادی کے لیے بغاوت کی تھی، خیال رہے کہ تامل قوم میں ہندو، مسلمان اور مسیحی افراد شامل ہیں۔

پاکستان نے سری لنکا میں دھماکوں پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ہر قسم کے تعاون کی پیشکش کی ہے۔ دھماکوں میں ہلاک ہونیوالے افراد کی شناخت، دھماکوں میں ملوث افراد یا گروہوں کی نشاندہی اور تفتیش کیلئے بھی پاکستان نے اپنی ٹیمیں بھیجنے کا عندیہ دیا ہے۔ اسی طرح طبی امداد فراہم کرنے کی بھی پیشکش کی گئی ہے۔ دھماکوں کے فوری بعد وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کی اور سری لنکا کی حکومت اور متاثر ہونیوالے لوگوں سے یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے سری لنکن عوام کے ساتھ تعزیت کی ہے۔ مصر میں سنی مسمانوں کے قدیمی علمی مرکز جامہ الازہر نے بھی دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کی ہے۔ جامعہ کے سربراہ امام شیخ احمد الطیب نے ہلاکتوں پر گہرے افسوس اور دکھ کا اظہار کیا ہے۔

کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسِس نے کہا کہ ایسٹر کا مقدس دن تمام انسانوں اور خاص طور پر مسیحی برادری کے لیے سوگ اور تکلیف لے کر آیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ اس موقع پر سری لنکا کی بھرپور معاونت کے لیے تیار ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا کہ یہ افسوس ناک بات ہے کہ لوگ ایسٹر کے تہوار کی خوشیاں منا رہے تھے، جب انہیں بزدلانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کی پرتشدد مسلح تحریک کے خاتمے کے بعد یہ سب سے بدترین اور خونی حملے ہیں۔ مقامی بدھ مت کے ایک وفد نے بھی حملے کا نشانہ بننے والے گرجا گھر پہنچ کر متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے۔ ابھی تک کسی مذہبی یا نسلی گروپ یا تنظیم نے ان دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …