بدھ , 24 اپریل 2024

مسیحا سے جادوگر تک

(عارف بہار)

اسد عمر کو وزیر خزانہ کے عہدے سے کیا ہٹایا گیا کہ اس قطار میں کئی اور نامور ارکان کابینہ بھی کھڑے پائے گئے۔ اس طرح آٹھ ماہ کے عرصے میں وفاقی کابینہ پہلی اتھل پتھل کاشکار ہوئی۔ کابینہ کی تشکیل کے وقت ہی وزیراعظم عمران خان نے تمام ارکان پر واضح کر دیا تھا کہ وزراء کا عہدہ ان کی کارکردگی سے مشروط ہوگا اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرنے والے وزراء کو عہدوں سے ہٹایا جائے گا۔ عمران خان کے اس واضح انتباہ کے باجود بہت سے وزراء نے کارکردگی کو بہتر بنانے میں دلچسپی نہیں لی۔ وہ یہ بات فراموش کر بیٹھے کہ عمران خان نہ خود مکھی پر مکھی مارنے وزیراعظم ہاؤس میں آئے ہیں اور نہ وہ کسی ساتھی کی اس روش کو قبول کریں گے۔ آٹھ ماہ میں وزراء کی کارکردگی نے حکومت کا کوئی نقش قائم ہونے ہی نہیں دیا۔ عوام کی خدمت اور انہیں اشرافیہ اور جنم جنم کی حکمران کلاس سے بچانے کے نعروں کیساتھ اقتدار میں آنے والی پی ٹی آئی اپنا عوام دوست امیج قائم کرنے میں ناکام رہی۔ روپے کی قدر میں کمی، پٹرولیم مصنوعات، ادویات اور اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں اضافے نے اس حکومت کا عوام دوست کی بجائے کوئی اور ہی تاثر قائم کیا۔ میڈیا جارحانہ رویہ اپنا کر اس حکومت کے نقش ناپائیدار کو مٹانے کی کوشش کرتا رہا۔ حکومت کے قدم زمین پر ٹک رہے تھے نہ اس ہی سہارے کی کوئی شاخ اس کے ہاتھ میں آرہی تھی۔ حکومت کٹی ہوئی پتنگ کی طرح حالات کی ہواؤں کے دوش پر ادھر سے اُدھر اُڑتی جا رہی تھی۔ معاشی حالات کی سنگینی اور ماضی کی تباہ کاریوں سے انکار قطعی ممکن نہیں مگر حکومت اپنی سمت کا تعین کرتی ہوئی بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ چند ایک وزراء ہی اپنا کام بطریق احسن کر رہے تھے۔ اکثریت ٹی وی پر حاضریاں لگوانے کو ہی اعلیٰ کارکردگی کا معیار جان رہے تھے۔ یہ عمران خان کے سٹائل سے قطعی برعکس اور متضاد تھا جو دن اور رات کا بڑا حصہ امورمملکت نمٹانے میں صرف کرتے ہیں۔

عمران خان بڑے دعوؤں اور امیدوں کیساتھ تو برسرا قتدار آئے تھے مگر وہ روایتی طریقۂ انتخاب کے ذریعے اور قدم قدم پر ’’سٹیٹس کو‘‘ کے محافظ الیکٹبلز کیساتھ مفاہمت کرکے ہی برسراقتدار آئے ہیں۔ یہی الیکٹیبلز ان کی حکومت کے گلے کی پھانس بن کر رہ گئے ہیں۔ پارلیمانی مجبوریوں اور عددی کمزوریوں کے باعث ان کیلئے پہلے مرحلے پر سٹیٹس کو توڑنا ممکن نہیں تھا اسی لئے وہ اپنی رفتار دھیمے کئے ہوئے رہے اور وہ وزراء کی ناقص کارکردگی کو بھی برداشت کرتے رہے۔ اس برداشت کی پالیسی میں عوام کا کچومر نکلتا چلا گیا۔ جب پانی سر کے اوپر سے گزر گیا تو کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ کا عمل شروع ہوگیا۔ کابینہ میں حالیہ تبدیلی اگر محض چہروں کی تبدیلی ثابت ہوئی تو پھر اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ عمران خان کے پاس سسٹم کو بچانے کیلئے وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے۔ حکومت کو پہلی فرصت میں اپنا عوام دوست نقش قائم کرنا چاہئے یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی نظرآئے گی۔ عوام چاند ستارے نہیں مانگتے صرف اپنی زندگی میں تھوڑا سا ریلیف چاہتے ہیں تاکہ اس کی اوقات اور زندگی کے لمحات تلخ سے تلخ تر نہ ہوں۔ اسد عمر کی وزارت خزانہ کے آٹھ ماہ جس طرح گزرے اس کے بعد لوگوں کا ’’معاشی مسیحا‘‘ سے دل اُچاٹ ہو گیا تھا اور وہ پرویز مشرف دور کے کسی ’’معاشی جادوگر‘‘ کا انتظار کرنے اور دعائیں مانگنے لگے تھے۔ وہ جادوگر ٹی وی پر بلاشبہ اُلٹے سیدھے اعداد وشمار بیان کرکے عام آدمی کی خوشحالی کی تصویر تو پیش کرتے تھے مگر اپنے جادوئی کمالات سے مہنگائی کو قابو میں رکھنے میں بھی کسی حد تک کامیاب رہتے تھے۔ عام آدمی کو زمین پر ان کی بیان کردہ خوشحال جنت گوکہ خوردبین سے بھی دکھائی نہیں دیتی تھی مگر اس کے دن نسبتاً آسان گزر جاتے تھے۔ ایسے ہی ایک معاشی جادوگر شوکت عزیز بھی تھے جو اپنی صلاحیتوں کا کمال دکھاتے دکھاتے وزیراعظم بن بیٹھے۔ اسد عمر معاشی مسیحائی کے نام پر وزیراعظم عمران خان کا انتخاب تھے اور قوم بھی ان سے راتوں رات کسی معجزے کی توقع لگائے بیٹھی تھی مگر ان کی مسیحائی کچھ یوں ہوتی چلی گئی

یہ مسیحائی بھی کیا خوب مسیحائی ہے
چارہ گر موت کو تکمیلِ شفا کہتے ہیں

اسد عمر کی معاشی پالیسیوں کا سارا بوجھ عام آدمی اور کاروباری طبقات پر منتقل ہوتا جا رہا تھا اسی ماحول میں ایک معاشی جادوگر کی آمد کا انتظار کیا جانے لگا تھا۔ نصف درجن ناموں کی فہرست میں قرعۂ فال حفیظ شیخ کے نام نکل آیا جو ماضی میں کئی مواقع پر جادوگر ٹیم کا حصہ رہ کر اپنے کمالات دکھا چکے ہیں۔ اسد عمر اپنا نامۂ عمل لئے جا چکے ہیں۔ ان کے پاس اپنا دفاع کرنے کو اب بھی کچھ زیادہ نہیں۔ وہ ایک قابل ذہین اور معصوم صورت شخصیت تھے اور پاکستان کی معیشت کا بحران ان کی لاحیتوں سے لگاؤ نہیں کھاتا تھا۔ یہ فضاء ایک جادوگر اور چابک دست شخصیت اور ٹیم کا تقاضا کر رہی تھی۔ حفیظ شیخ کے کرسی سنبھالتے ہی بازار حصص کی اُداسی اور ویرانی کچھ کم ہوئی۔ اسد عمر نے امریکہ سے واپسی پر آئی ایم ایف سے معاملات طے ہوجانے کی نوید سنائی تھی اور شاید اس نوید کیساتھ اسد عمر کا کام ختم ہو چکا تھا اور یہیں سے حفیظ شیخ کا کردار اور کام شروع ہورہا تھا گویا کہ اب آئی ایم ایف کو اپنے قرض کی نگرانی اور حسب ہدایت استعمال کیلئے ایک آزمودہ اور معتمد شخص کی ضرورت تھی اور وہ شخصیت حفیظ شیخ قرار پائے۔ قرض اور لین دین کے چکر میں حالات کا جبر یہی ہوتا ہے کہ یہاں لینے والے ہاتھ کے پاس شرائط منوانے اور نازنخرے دکھانے کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں۔ اس بے رحم کھیل میں دینے والا ہاتھ بالا بھی رہتا ہے اور اسی کے شرائط اور خواہشات بھی حاوی اور مقدم قرار پاتی ہیں۔ اسی لئے اہل نظر فقر وقناعت اور اپنے جامے میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ حفیظ شیخ کا جادوئی کمالات پر شک وشبہ تو نہیں مگر پاکستان کا معاشی بحران اس قدر گہرا اور طویل ہے کہ راتوں رات قابو پانا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ جاتے جاتے اسد عمر بھی یہی پیغام حفیظ شیخ کے نام چھوڑ گئے ہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …