بدھ , 24 اپریل 2024

سازشوں کے سائے میں عمران خان کا دورہ ایران اور اسکے اثرات

(رپورٹ: ایس اے زیدی)

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے گذشتہ دنوں وفد کے ہمراہ ایران کا دو روزہ اہم سرکاری دورہ کیا، اس دورہ کی دعوت ان کو ایرانی صدر حسن روحانی نے دی تھی، دورہ کے دوران عمران خان نے انقلاب اسلامی کے رہبر آیت اللہ سید علی خامنہ ای اور ایرانی صدر سمیت اہم ملاقاتیں کیں۔ یہاں واضح ہو کہ رواں سال فروری میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے بعد سے ایران اور سعودی عرب کیساتھ پاکستان کے تعلقات کو لیکر نہ صرف مختلف قسم کی بحثیں جاری تھیں، بلکہ درحقیقت اسلام آباد کے ریاض اور تہران کیساتھ تعلقات کو مس بیلنس کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ محمد بن سلمان کے دورہ کو نہ صرف میڈیا نے غیر معمولی کوریج دی بلکہ حکومت نے بھی خوب اوور ری ایکٹ کیا۔ سعودی شہزادے کے اس دورہ کے دوران سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اسلام آباد میں اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کیساتھ بیٹھ کر سفارتی آداب کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران پر بے جا الزام تراشی کی تھی۔ عمران خان کے دورہ تہران سے ٹھیک ایک روز قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سانحہ کوسٹل ہائی وے جیسے افسوسناک واقعہ کو لیکر برادر اسلامی ملک ایران کے حوالے سے جو غیر ذمہ دارانہ، زمینی حقائق سے برعکس اور ملک کیلئے جگ ہنسائی کا باعث بننے والی پریس کانفرنس کی، اس نے کئی سوالات کو جنم دیا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ان بھونڈے الزامات نے خود حکومت کے اس بیانیہ کو بھی کھوکھلا ثابت کر دیا کہ بعض قوتیں پاک، ایران تعلقات خراب کرنے کے درپے ہیں، یہاں تو محسوس یہ ہو رہا تھا کہ خود شائد شاہ محمود قریشی صاحب ہی ان قوتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اپوزیشن سمیت کئی طبقات نے شاہ محمود قریشی کے اس نازک مرحلہ پر دیئے جانے والے بیان کی شدید مذمت کی اور عمران خان سے کچھ محبت رکھنے والے حلقوں نے اس پریس کانفرنس کو خان صاحب کیخلاف سازش بھی قرار دیا، اگر ایسا ہے تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیراعظم اتنے بے بس ہیں کہ ان کا اختیار اپنے وزیر خارجہ جیسی اہم شخصیت پر بھی نہیں۔؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ شاہ صاحب نے خان صاحب کو علم میں لائے بغیر یہ پریس کانفرنس کی ہو۔؟ کیا یہ معاملہ ٹھیک 24 گھنٹے بعد عمران خان تہران میں ایرانی قیادت کیساتھ بیٹھ کر ڈسکس نہیں کرسکتے تھے۔؟ قوی امکان یہی ہے کہ یہ سب حکومتی اراکین کی مشاورت سے ہوا ہوگا، کیونکہ اسلام آباد کی خواہش تھی کہ عمران خان دورہ تہران کے موقع پر جارحانہ پوزیشن میں ہوں اور ایرانی قیادت کو پریشر میں رکھ کر بات کریں۔

واضح رہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی کے آخری دورہ پاکستان سے چند روز قبل بھی اس قسم کی ایک کوشش کی گئی تھی، جب بھارتی جاسوس اور دہشتگرد کلبھوشن یادیو کو منظر عام پر لایا گیا، تاکہ ایران پاکستان تعلقات خراب کئے جائیں اور اس دورہ کو ناکام کیا جائے۔ عمران خان کا دورہ ایران بظاہر کافی مثبت دکھائی دیتا ہے، اس دورہ کے دوران دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے سمیت بارڈر کی صورتحال پر تفصیلی بات چیت ہوئی، جس میں مشترکہ فورس کی تشکیل کی تجویز بھی زیر غور آئی، خان صاحب نے آیت اللہ خامنہ ای کیساتھ ملاقات کو انتہائی خوشگوار قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں نے آیت اللہ سید علی خامنہ ای کو نہ صرف تاریخی و سیاسی بلکہ روحانی شخصیت بھی پایا، علاوہ ازیں دونوں ممالک کے مابین کچھ معاہدوں سمیت بجلی اور گیس کی ایران سے درآمد پر بھی بات چیت ہوئی۔ اس موقع پر عمران خان نے شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس کے برعکس برملا کہا کہ "‏مجھے علم ہے کہ ایران دہشتگردی کا نشانہ بنا ہے اور یہ دہشتگرد تنظیمیں پاکستان میں آپریٹ کرتی ہیں۔” وزیراعظم کے اس بیان کو انگریزی پاکستانی اخبار ڈان نیوز نے شہ سرخی کے طور پر شائع کیا۔

امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد کی جانے والی حالیہ پابندیوں کے باوجود عمران خان کا یہ دورہ واقعی حوصلہ افزا اقدام ہے، تاہم محسوس یہ ہوتا ہے کہ پاک، ایران تعلقات کو متاثر کرنے کی کوششیں نہ صرف بیرونی سازش ہے بلکہ ان کوششوں میں بعض داخلی ہاتھ بھی ملوث ہیں، جن کی خواہش ہے کہ پاکستان کسی صورت ایران کے قریب نہ ہو اور اسلام آباد کو مکمل طور پر سعودی اور امریکی بلاک میں شامل کر لیا جائے۔ واضح رہے کہ وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے سے قبل گذشتہ الیکشن میں فتح یقینی ہونے کے بعد عمران خان نے اپنے پالیسی بیان میں اعلان کیا تھا کہ ہم سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات میں نہ صرف توازن برقرار رکھیں گے بلکہ دونوں برادر اسلامی ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے بھی کردار ادا کریں گے۔ عمران خان کیلئے یہ توازن برقرار رکھنا واقعی بہت ضروری ہے، سعودی حکومت کے عالمی منظر نامے میں موجودہ منفی کردار کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان کے سعودیہ کیساتھ تعلقات نہیں ہونے چاہئیں، تاہم یہ تعلقات ملکی مفادات اور خطہ کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے باوقار اور متوازن ہونے چاہئیں۔

بلاشبہ عمران خان کا حالیہ دورہ ایران کئی اندرونی و بیرونی سازشوں میں گھرا ہوا ثابت ہوا ہے، تاہم اس دورہ کے خطہ، بالخصوص پاکستان پر مثبت اثرات اسی صورت میں مرتب ہوسکتے ہیں کہ جب خان صاحب امریکہ سمیت ایران مخالف ریاستوں کا دباو مسترد کرتے ہوئے گیس اور بجلی کی درآمد کے حوالے سے بولڈ فیصلے کریں، کیونکہ پاکستان کو اس وقت بجلی، گیس کی درآمد سمیت دوطرفہ تجارت کی اشد ضرورت ہے۔ بارڈر کے معاملات کو بہتر بناتے ہوئے دونوں طرف سے دراندای کو روکنے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں، مشترکہ فورس کی تجویز کو عملی جامہ پہنایا جائے، اس اقدام سے نہ صرف دونوں ممالک میں دہشتگردی کے واقعات کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے بلکہ دونوں طرف جنم لینے والی بدگمانیوں کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برادر اسلامی ملک ایران نے ہر مشکل اور کڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور پاکستان نے بھی ہمیشہ بڑے بھائی کا کردار ادا کیا، تاہم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے حالیہ بیان کہ ”دشمن کی خواہشات کے برعکس پاک، ایران تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔“ کے مطابق دونوں ممالک کو آگے بڑھنا ہوگا۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …