ہفتہ , 20 اپریل 2024

پاکستان اور ایران کی ہم آہنگی

(سید ذیشان علی کاظمی) 

وزیراعظم عمران خان، برادر اسلامی ملک ایران کا دو روزہ دورہ کرکے وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا دورۂ ایران بہت اہم وقت میں ہوا ہے، ایران کے بعد وزیراعظم چین کے دورہ پر ہیں جہاں ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے موضوع پر عالمی کانفرنس ہوگی، اس کانفرنس میں40سربراہان مملکت سمیت150ممالک کے مندوبین شریک ہوں گے۔ وزیراعظم کی چینی قائدین سے سی پیک کے منصوبوں پر بات چیت بھی ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان حکومت میں آنے کے بعد سے مسلسل غیر ملکی دوروں پر ہیں اور پاکستان میں بھی غیرملکی سربراہوں کی آمد جاری ہے۔ ان تمام روابط کا تعلق بدلتی عالمی صورتحال سے ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان اور ایران کے درمیان بہتر تعلقات دونوں ممالک اور امتِ مسلمہ کیلئے خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایران اور افغانستان پاکستان کے پڑوسی ممالک بھی ہیں، وزیراعظم عمران خان نے دورۂ ایران میں اپنے وفد میں مشیر تجارت، وزیرآبی وسائل، مشیر پیٹرولیم، وزیر انسانی حقوق کے علاوہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو بھی ساتھ رکھا تھا، جس سے اس دورے کی حساسیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان اور ایران کی قیادت کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے مذاکرات کے مختلف ادوار ہوئے۔ وزیراعظم نے اپنے دورۂ ایران کا آغاز مشہد میں روضہ امام رضا میں حاضری سے کیا، جہاں ان کا استقبال گورنر خراسان نے کیا۔ وزیراعظم عمران خان کو ایرانی صدر حسن روحانی نے دورۂ ایران کی دعوت دی تھی۔ اس دورے کے درمیان اقتصادی امور کیساتھ سیکورٹی امور پر بھی مذاکرات ہوئے۔ وزیراعظم نے ایرانی رہبر آیت اللہ خامنہ ای سے بھی ملاقات کی جس میں ایرانی صدر حسن روحانی بھی موجود تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے ایرانی صدر کو بھی دورۂ پاکستان کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی۔

وزیراعظم عمران خان کے دورۂ ایران سے قبل بلوچستان میں دہشتگردی کی ایک ہولناک واردات ہوئی تھی۔ بلوچستان کے ساحلی علاقے اور ماڑہ میں پاکستان بحریہ‘ فضائیہ اور کوسٹ گارڈ کے14جوانوں کو بس سے اُتار کر اور ان کی شناخت کرکے قتل کر دیا گیا تھا اور ماڑہ حملے کے بعد وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ہمارے پاس انٹیلی جنس معلومات موجود ہیں کہ دہشتگردی کے اس انسانیت سوز واقعے میں ملوث دہشتگرد تنظیم بی آر ہے جس کے تربیتی اور لاجسٹکس کیمپ ایران میں موجود ہیں۔ وزیرخارجہ کے مطابق اس سلسلے میں تمام شواہد اور معلومات ایران کی حکومت کو فراہم کر دی گئی ہیں۔ اس سے قبل فروری کے مہینے میں ایرانی صوبہ سیستان میں پاسداران انقلاب کی پریڈ پر حملہ ہوا تھا جس میں27افراد شہید ہوگئے تھے۔ اس حملے کے بعد ایران نے دعویٰ کیا تھا کہ حملہ آور کا تعلق پاکستان سے تھا اور اس حملے کی ذمہ داری جس تنظیم جیش العدل نے قبول کی تھی وہ اپنی سرگرمیاں پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے منظم کرتی ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورۂ ایران کے موقع پر ایرانی قیادت سے بات چیت میں اہم موضوع سرحدوں کے آر پار دہشتگردی کی مستقل وارداتیں ہیں یہی وجہ ہے کہ دہشتگردی کی وارداتوں کا مستقل حل تلاش کرنے کیلئے وزیراعظم اپنے وفد میں سیکورٹی ادارے یعنی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو بھی ساتھ لیکر گئے تھے۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی یہی کہا ہے کہ ایران کے دو روزہ سرکاری دورے کا بنیادی مقصد سرحد کے آرپار ہونیوالی دہشتگردی کی مسلسل وارداتوں کے روک تھام کا مستقل حل تلاش کرنا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ ایران پاکستا ن کیساتھ دوطرفہ تعلقات کو مستحکم بنانے کا عزم کئے ہوئے ہے اور کوئی تیسرا ملک ہمارے برادرانہ تعلقات کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ وزیراعظم عمران خان کا دورۂ ایران ایک اہم وقت میں ہوا ہے اور اس بات کی اُمید کی جاسکتی ہے کہ دونوں ممالک میں دہشتگردی کی وارداتوں کے ذریعے تعلقات خراب کرنے کی کوششیں جو قوتیں کررہی ہیں وہ ناکام ہوں گی۔ افغانستان پر امریکی قبضے اور عراق پر حملے نے عالمی سیاست کو تبدیل کر دیا ہے جس نے مسلم ممالک کیلئے پیچیدگی پیدا کر دی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان، ایران اور ترکی کی ہم آہنگی تمام مسلم ممالک خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ کی سلامتی کی ضامن ہے۔ یہ امریکہ اور مغربی اقوام ہیں جو گلوبلائزیشن کے پردے میں امت مسلمہ کو تقسیم کر رہی ہیں۔ ایران اور پاکستان دونوں نے مشکل وقت کو گزار لیا ہے۔ ایران طویل عرصے تک امریکی پابندیوں کا شکار رہا ہے۔

امریکہ نے ایران پر پابندیوں کے خاتمے کیلئے جوہری معاہدہ کیا، اس معاہدے میں تمام عالمی قوتوں کی نمائندگی تھی لیکن امریکہ نے یکطرفہ طور پر جوہری معاہدے کو ختم کر دیا، اسی طرح امریکہ نے پاکستان کے اوپر بھی پابندیوں کی تلوار لٹکا رکھی ہے، پاکستان کے داخلی اقتصادی وسیاسی بحران کا اصل سبب امریکی دباؤ اور احکامات ہیں لیکن عالمی سیاست تبدیل ہو چکی ہے، خاص طور پر چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی، دفاعی، تذویراتی اتحاد امریکہ کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ امریکہ عالم اسلام میں عرب عجم، شیعہ سنی تصادم کی آگ کو بھڑکا رہا ہے۔ امریکہ اور اس کی اتحادی قوتیں عالم اسلام میں ایک نئی پراکسی وار شروع کرچکی ہیں جس کیلئے پراسرار دہشتگرد تنظیموں کو پالا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم کا دورۂ ایران بروقت ہے اور دونوں ممالک کا تعاون، اتحاد، دوستی اُمت مسلمہ کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کے دورۂ ایران پر اپوزیشن کی طرف سے اسمبلی میں ہنگامہ آرائی سے ملک دشمن قوتوں کے ایجنڈے کو تقویت مل رہی ہے اسلئے اپوزیشن کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے بجائے ملکی مفاد کو مدنظر رکھ کر احتجاج کرنا چاہئے، اُمید ہے کہ پاکستان اور ایران کی سیاسی وعسکری قیادت باہمی تعاون اور تدبر سے دشمنوں کی سازش کو ناکام بنائیں گے۔بشکریہ مشرق نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …