ہفتہ , 20 اپریل 2024

‘ون بیلٹ ون روڈ’ چین کا تجارتی منصوبہ یا کچھ اور ؟

ایشیاء کی بڑی طاقتیں چین اور بھارت دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں کے طور پر ابھری ہیں اور اس خطے کے کئی بڑے اور چھوٹے ممالک بھی قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ایشیاء مجموعی طور پر چار کروڑ 45 لاکھ اناسی ہزار اسکوائر کلو میٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس میں دنیا کی قدیم اقوام آباد ہیں، خطے میں 55 ممالک ہیں۔

اس براعظم میں ساڑھے چار ارب کے لگ بھگ دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی موجود ہے، اتنی بڑی آبادی اور بہتر قدرتی ماحول آب و ہوا اور وسائل سے مالا مال خطے پر دنیا کی تمام طاقتوں کی نظر رہتی ہے اور یہ کوشش بھی کہ ان وسائل اور آبادی سے معاشی فوائد کو اپنے خطوں تک پہنچایا جاسکے۔

چین اور بھارت اس خطے میں دو بڑے آبادی اور وسائل رکھنے والے ممالک ہیں اور خطے میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں، یہ دونوں ملک دیگر ایشیائی ممالک میں مختلف طریقوں سے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے پالیسیاں ترتیب دیتے رہتے ہیں اور چھوٹے و کمزور ممالک کو مالی امداد، قرضے، ٹیکنالوجی و ترقیاتی منصوبے اور فوجی امداد فراہم کر کے ان پر اثر انداز رہتے ہیں، اس کے بدلے بعض جگہوں پر ان کے وسائل میں حصہ لیا جاتا اور بعض معاملات میں سیاسی حمایت حاصل کی جاتی ہے۔

ایشیائی ممالک میں چین کا بڑھتا اثر و رسوخ عالمی طاقتوں کے لئے شدید بے چینی کا باعث بن رہا ہے، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اینی شی ایٹو ( بی آر آئی) منصوبے کے ذریعے دنیا پر معاشی اجارہ داری کی خواہش صدیوں سے موجود عالمی طاقتوں کی اجارہ داری ختم کرنے کا باعث ہوگی۔

سارک میں شامل وہ ممالک جو چین سے قربت رکھتے ہیں، انہیں ہدف بنا کر معاشی طور پر کمزور کرنے کے ساتھ ان ممالک میں دہشت گرد کارروائیاں بھی کرائی جارہی ہیں جو ہائبرڈ وار کا حصہ نظر آتی ہیں۔

یہ بات بار بار مشاہدے میں آرہی ہے کہ امریکا اور بھارت کسی صورت خطے میں چین کی سیاسی اور معاشی برتری نہیں چاہتے، بحرہند میں چین کی بڑھتی قوت کو امریکا اپنے لیے براہ راست خطرہ سمجھتا ہے اور بھارت بھی خطے میں اپنا اثر و رسوخ کھونا نہیں چاہتا جس کی وجہ سے خطے میں امریکا اور بھارت کی حکمت عملی ایک نظر آتی ہے ۔چین کا ‘ون بیلٹ ون روڈ’ منصوبہ دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور کئی بڑے خطے اور براعظم اس سے براہ راست منسلک ہورہے ہیں۔

ایشیا، خلیج ، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور یورپ کو زمینی اور بحری راستوں سے جوڑنے کے لئے طویل منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے، سمندری راہداریاں رکھنے والے ممالک کو بھی ون بیلٹ منصوبے سے منسلک کیا جارہا ہے، دنیا بھر میں اس کے تحت بحری راہداریوں کا منصوبہ انتہائی اہمیت اختیار کئے ہوئے ہے۔

جنوبی چین کے سمندر سے بحیرہ ہند، بحیرہ عرب، آبنائے ہرمز، خلیج فارس، خلیج عمان، خلیج عدن اور بحیرہ احمر سے بحیرہ روم تک بحری راہداریوں کو جوڑنے کا منصوبہ بھی ‘ون بیلٹ ون روڈ’ کا حصہ ہے۔

جنوبی چین سے شروع ہونے والے زمینی راستوں پر شاہراہوں کو منسلک کرنے کا منصوبہ جنوب مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیاء ، وسطی ایشیا اور مغرب کے ایشیائی ممالک اور یورپ تک پھیلا ہوا ہے جہاں یوریشیا یعنی یورپ اور ایشیا کو ملانے والی شاہراہ بھی اہم ترین ہے، اسی منصوبے کے تحت بحری راہداریاں ایشیائی ممالک کو خلیجی ریاستوں، براعظم افریقہ اور یورپ تک مکمل رسائی دے سکیں گی۔

چین کے اس منصوبے میں ایشیا کی وسائل سے مالا مال ریاستیں زمینی اور بحری راہداریاں حاصل کر کے بھرپور معاشی فوائد حاصل کیے جاسکیں گے اور ساتھ ہی ایشیاء، افریقہ اور یورپ میں تجارت اور دیگر سرگرمیوں کے لئے تیز تر ذرائع نقل و حمل دستیاب ہوجائیں گے۔

اسی منصوبے کا ایک حصہ پاک چین اکنامک کوریڈور (سی پیک) بھی ہے، چین کے صوبے کاشغر سے شروع ہونے والا یہ زمینی راستوں کا منصوبہ پاکستان میں گلگت بلتستان، خیبرپختونخواہ، پنجاب اور سندھ سے ہوتا ہوا بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ پر اختتام پذیر ہوتا ہے جہاں سے بحری راہداری کا منصوبہ شروع ہوتا ہے جو ایک طرف بحیرہ عرب سے عرب اور خلیجی ممالک و ایران اور دوسری جانب بحر ہند میں جنوب اور جنوب مشرق ایشیائی ممالک کے ساتھ افریقہ اور یورپ تک تجارتی راہداری فراہم کرے گا، جہاں سی پیک کی زمینی اور بحری تجارتی راہداریاں چین کے مغربی حصے اور وسطی ایشیائی ممالک کو خطے کے دیگر ممالک اور براعظموں سے جوڑ دیں گی۔

سی پیک منصوبے پر پاکستان کے اندر بھی خاصے تحفظات پائے گئے اور یہ بات بارہا کہی جاتی ہے کہ پاکستان کو اس منصوبے میں اپنی خودمختاری اور معاشی معاملات پر بہت جانچ پڑتال اور مضبوط پالیسی اختیار کرنی چاہیے کیونکہ سری لنکا اور دیگر ممالک میں چین کے معاہدے اور اس کی پالیسیاں ان ممالک کے مفادات کے خلاف نظر آئی ہیں ۔

آزاد تجارت کے معاہدے کی صورت میں بھی پاکستان کو یہ دیکھنا ہوگا کہ اسے اپنی ایکسپورٹ میں چین سے کہاں تک فائدہ ہوسکتا ہے اور ملک کے وسائل اور اثاثے کس حد تک محفوظ ترین معاہدوں کے تحت استعمال کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

بھارت اب تک اس منصوبے سے خائف نظر آتا ہے اور وہ چین کے بڑھتے اثر و رسوخ اور اجارہ داری کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے، اس بناء پر پاکستان اور چین کے تعلقات میں اضافہ اس کے لیے تکلیف دہ ہے، روایتی حریف ہونے کی وجہ سے بھارت کو پاکستان کی معاشی استحکام کی طرف سفر بھی کھٹک رہا ہے اور وہ خطے میں سی پیک کا بڑا مخالف نظرآتا ہے۔

بیلٹ روڈ منصوبے سے نہ صرف ایشیائی، افریقی اور یورپی ممالک فائدہ اٹھاسکیں گے بلکہ چین کا اثر و رسوخ بھی ان خطوں میں بڑھ جائے گا جہاں آج تک مغربی طاقتوں کی اجارہ داری تھی تو یہ وہ منصوبہ ہے جس میں عالمی نقشے پر معاشی طور پر ایشیاء طاقتور خطے کے طور پر ابھرے گا اور چین اس کا محور ہوگا۔بشکریہ جیو نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …