بدھ , 24 اپریل 2024

کیا معاشی بحران ختم ہو جائے گا ؟

(عباس مہکری)

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیر اعظم عمران خان نے اپنے انتہائی معتمد ساتھی اسد عمر کو وفاقی وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹا دیا ہے، جنہیں حکومت بننے سے کئی سال پہلے تحریک انصاف ممکنہ وزیرخزانہ کے طور پر قوم کے سامنے پیش کر رہی تھی اور جنہیں پاکستان میںتبدیلی اور معاشی انقلاب کاسرخیل قرار دے رہی تھی۔ اب پاکستان میں عظیم ترتبدیلی اور معاشی انقلاب کے لیے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو اسد عمر کی جگہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس تبدیلی سے نیا پاکستان بنایاجا سکے گا ؟

اس سوال کاجواب حاصل کرنے سے پہلے کچھ حقائق ضرور مدنظر رکھنا چاہئیں۔ ہم تسلیم کریں یانہ کریں۔ پاکستان 14 اگست 1947 ء کو نو آبادیاتی تسلط سے آزاد ہونے کے بعد معاشی اور سیاسی طور پر ایک آزاد ریاست نہیں بن سکا۔ پاکستان عالمی سامراج کے نئے تسلط میں چلا گیا، جسے ’’ جدید نو آبادیت ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستان نے اپنی ابتدامیں اشتراکی ( سوشلسٹ ) کیمپ میں جانے کی بجائے سرمایہ دار ( کیپٹل ) کیمپ میں جانے کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ ان حکمرانوں نے کیا، جو پاکستان میں جمہوریت سے خوف زدہ تھے۔ پاکستان سرمایہ دار یا سماجی کیمپ کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا اور سینٹو ( CENTO ) یعنی سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن یا معاہدہ بغداد اور سیٹو ( SEATO ) یعنی ساؤتھ ایشین ٹریٹی آرگنائزیشن کا رکن بن گیا اور اس خطے میں سارے سامراجی مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری لے لی۔ اس کے بعدیہ ممکن ہی نہیں تھا کہ پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر ایک حقیقی آزاد ریاست بن سکے۔ پاکستان نے سامراجی طاقتوں کے سیکورٹی اور سامراجی مفادات کا تحفظ کیا اور آج وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ایک فلاحی ریاست کی بجائے سیکورٹی اسٹیٹ بن گیا ہے تو وہ کچھ سوچ سمجھ کر یہ بات کر رہے ہوں گے۔ یہ اور بات ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی طرح انہیں بھی یہ پتا نہیں کہ ایسی باتیںبیان نہیں کرنا چاہئیں۔ عمران خان بھی آج کل بیرون ملک دورے پر دئیے گئے اپنے ایک بیان کی وجہ سے مشکل میں ہیں۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کی سیاسی تربیت نہیں ہے کیونکہ وہ کسی سیاسی تحریک کی پیداوار نہیں ہیں۔ وہ صرف سیاست کو گالی دے کر اس مقام تک پہنچے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اس بات کا اعتراف ہی نہیں کر رہی ہے کہ اسد عمر کو وزیر خزانہ کے عہدے سے کیوں ہٹایا گیا۔ اگر وہ اس معاملے کا حقیقی ادراک کر لے تو اسے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو گالی دینے پرافسوس ہو گا۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو یاد ہو گا کہ عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف ) کی شرائط سامنے آنے کے بعد اسد عمر نے جو بیان دیا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمدممکن نہیں۔ اس وقت وزیر اعظم عمران خان یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ پاکستان کے طاقتور ترین وزیراعظم ہیں لیکن اسد عمر کو عہدے سے ہٹانے کے بعد انہیں اب طاقتور ترین وزیر اعظم کا دعویٰ نہیں کرنا چاہئے۔

بات یہ ہو رہی تھی کہ پاکستان کی معیشت جدید نو آبادیاتی تسلط میں ہے۔ اس میں اسد عمر کی جگہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کیا کریں گے۔ وہ پہلے بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں وزیر یا مشیر خزانہ کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں لیکن پاکستان کی معیشت تبدیل نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ پاکستان میں صرف اس وقت ہوتے ہیں، جب انہیں وزیر یا مشیر کا عہدہ ملتا ہے۔ جب وہ اس عہدے سے الگ ہوتے ہیں، وہ پاکستان سے باہر چلے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ عمران خان نے پیپلز پارٹی کے وزیر خزانہ کی خدمات حاصل کی ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ ہر دور اور ہر پارٹی کے وزیر خزانہ ہیں۔ وہ دراصل کسی اور کے وزیر خزانہ ہیں۔ عمران خان کو نہ تو پاکستان کی سیاست کے بارے میں پہلے کبھی ادراک تھا اور نہ ہی انہیں آئندہ کبھی ہو سکے گا۔

پاکستان کی معیشت کو سدھارنے کیلئے آئی ایم ایف اور عالمی بینک ( ورلڈ بینک ) صرف یہ شرائط عائد کرتے ہیں کہ پاکستان کے عوام پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس عائد کیے جائیں۔ بجلی، گیس اور پٹرول کے نرخ برھائے جائیں۔ ان شرائط پر عمل درآمد کرنے سے پاکستان کو ایک یا دو کھرب کی اضافی آمدنی ہوتی ہے لیکن یہ ایک یا دو کھرب پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ یا پاک بھارت سرحد پر کشیدگی کی وجہ سے اضافی اخراجات میں چلے جاتے ہیں۔ یہ پیسے نہ تو قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہوتے ہیں اور نہ ہی عوام کی فلاح و بہبود، روزگار کی فراہمی یا انفر اسٹرکچر کی تعمیر میں صرف کیے جاتے ہیں۔ اس لیے عوام پر ٹیکسوں کا اضافی بوجھ پاکستان کی معیشت کو بحران سے نکالنے، قرضوں کی ادائیگی یا عوام کی فلاح و بہبود میںمددگار ثابت نہیں ہوتا۔ عوام کو جتنا بھی لوٹاجائے، وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور روپے کی قدر میں کمی کی نذر اور ضائع ہوجاتا ہے۔ لہٰذا عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔ اس سے معیشت بحران سے نہیں نکلے گی اور نہ ہی بہتری کا کوئی امکان ہے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ کیا کریں گے یا انہوں نے پہلے کیا کیا ہے۔ پاکستان جیسی سیکورٹی اسٹیٹ اور جدید نو آبادیاتی معیشت میں سیاسی جماعتوں کا کردار صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسی ’’ ڈونر ایجنسیز ‘‘ کی شرائط کے خلاف مزاحمت کریں۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو یہ ادراک ہی نہیں ہے کہ مزاحمت کرنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں اس مزاحمت پر برطرف کی گئی ہیں۔ اسد عمر کی برطرفی پر مزاحمت نہ کرنے والی پاکستان تحریک انصاف پاکستان میں کیا تبدیلی لائے گی؟ اس سوال پر خود تحریک انصاف کی قیادت خصوصاً وزیراعظم عمران خان کو سوچنا چاہئے۔ عمران خان کو سیاست سیکھنے کے لیے دوبارہ 22سال جدوجہد کرنا ہو گی۔بشکریہ جنگ نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …