ہفتہ , 20 اپریل 2024

ون بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ: ایک تاریخی موقع

(منیر اکرم)

چینی صدر ژی جن پنگ نے 26/27 اپریل کو بیجنگ میں دوسری بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے میزبانی کے فرائض انجام دیے، 125 ممالک اور 40 بین الاقوامی تنظیمیں بیلٹ اینڈ روڈ انی شیٹو (بی آر آئی) سے منسلک ہوچکی ہیں۔ بی آر آئی ایک بہت ہی بلند نظر منصوبہ ہے جس کا مقصد پورے عظیم یوریشیائی قطعہ زمین اور اس کے قریب اور دور کنارے پر واقع جنوب مشرقی، جنوبی اور مغربی ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے درمیان آپس میں جڑی زمین اور بحری انفرااسٹریچر، تجارت اور سرمایہ کاری کے تحت رابطہ قائم کرنا ہے۔

37 سربرہانِ مملکت و حکومت، وزرا کی ایک کثیر تعداد اور 5 ہزار وفود نے اس فورم میں شرکت کی جو کہ بی آر آئی پر بڑھتی ہوئی رضامندی کی عکاس ہے۔ یہ قبولیت ترقی پذیر ممالک کے درمیان چین کی اقتصادی ترقی کے کامیاب ’ماڈل‘ کو اپنانے کی خواہش کی عکاسی کرتی ہے اور اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ منصوبہ عالمی اقتصادی پیداوار، زبردست خوشحالی اور ترقی پذیر ممالک میں امن اور استحکام کو جاتا انمول راستہ فراہم کرسکتا ہے۔

اطلاعات کے مطابق بی آر آئی کی شہہ سرخی کے ساتھ 175 معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ 90 ارب ڈالر کے منصوبوں پر عمل ہوچکا ہے۔ جبکہ انفرااسٹریچکر منصوبوں پر 1 ہزار ارب ڈالر خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ بی آر آئی منصوبوں کی فنڈنگ میں باضابطہ غیر چینی مالی ذرائع اور نجی مالیاتی شعبے کی شمولیت سے مذکورہ عدد میں اضافے کا امکان بھی ہے۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل معیشت اور ای کامرس جیسے اشتراکی فورمز کی شمولیت اور اس کے ساتھ بی آر اسٹیڈیز نیٹ ورک سے وابستہ تھنک ٹینکس کے قیام پر غور کیا جارہا ہے۔

امریکا نے بی آر آئی پر اپنی مخالفت واضح کردی ہے اور ترقی پذیر ممالک اور اپنے اتحادیوں کو اس منصوبے میں شمولیت کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے سیاسی اور میڈیا مہم کی سرپرستی بھی کی۔ امریکا اور مغرب کی جانب سے بڑھا چڑھا کر پیش کی جانے والی چین کی قرضے میں پھانسنے کی حکمت عملی سے بچنے کی تلقین، کرپشن اور ناکام منصوبوں کی کہانیاں اتنی بار دہرائی گئی ہیں کہ اب اکتاہٹ ہونے لگی ہے جبکہ ایسی رپورٹس کو متعلقہ فریقین بے بنیاد قرار دے چکے ہیں۔

چین کے قرضوں کو لے کر جو نصیحتیں کی جا رہی ہیں وہ تو خاص طور پر باعثِ کوفت ہیں کیونکہ 90 فیصد سے زائد ترقی یافتہ ممالک مغربی ملکوں اور اداروں کے مقروض ہیں۔ ان ترقی پذیر ممالک میں سالانہ 30 فیصد کے قریب نقدی کرنسی اسی قرضے کی قسط کی نذر ہوجاتی ہے۔ یہ قرضہ خراب مغربی ترقیاتی ’امداد‘ کا نتیجہ ہے جس نے وصول کنندہ ممالک کی ترقی میں بہت ہی معمولی کردار ادا کیا ہے۔

امریکی مخالفت کی اسٹریٹجک وجہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ دراصل یہ منصوبہ ’انڈیا پیسیفک‘ پر غلبہ قائم رکھنے کی خاطر چین کی سرحدوں پر اتحادیوں کا گھیرا بنانے کے امریکی مقصد کی کمر توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکا کو اس جنگ میں اپنی تسلیم کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔

امریکا کے ایشیائی اتحادیوں میں سے کوئی بھی اپنے سب سے بڑے تجارتی ساتھی چین کو للکارنے کا دم خم نہیں رکھتا ہے۔ ہندوستان نے واضح کردیا کہ یہ چین کے ساتھ اقتصادی اشتراک کو اہمیت دیتا ہے۔ جاپان اور آسٹریلیا نے بحیرہ جنوبی چین میں ’فریڈم آف نویگیشن‘ آپریشنز میں امریکی نیوی میں شامل ہونے سے خود کو روک دیا ہے۔ جاپان امریکی محصولات سے بیزار آ کر بی آر آئی میں ’تھرڈ پارٹی‘ (تیسرے فریق) کے طور پر شامل ہوچکا ہے۔ بی آر آئی منصوبوں میں مشترکہ سرمایہ کاری کے لیے جاپان چائنہ فنڈ کا قیام بھی عمل میں لایا جا چکا ہے۔

17 وسطی یورپی ممالک نے اقتصادی اشتراک بشمول رابطہ کاری کے منصوبوں کو فروغ دینے کے لیے چین کے ساتھ مل کر ایک گروپ قائم کیا ہے۔ اٹلی ’جی 7‘ کا وہ پہلا ملک ہے جس نے باضابطہ طور پر بی آر آئی میں شامل ہوا۔ حتیٰ کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے دیگر ممالک، جو اپنے اتحادی امریکا کے ہاتھوں بی آر آئی پر تنقید کرنے کے لیے مجبور محسوس کرتے ہیں، وہ بھی چین کی اقتصادی وسعت اور بی آر آئی سے حاصل ہونے والے ہر ایک تجارتی موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے ہیں۔

امریکا کی اپنی کمپنیاں باضابطہ بائیکاٹ پر دھیان دینے کے موڈ میں نظر نہیں آتیں۔ ایک لاکھ 50 ہزار سے زائد امریکی کمپنیاں چینی معیشت کے دائرے میں رہ کر کام کر رہی ہیں۔ محض چند ایک کا ہی باہر نکلنے کا امکان ہے۔ چین کے مزید ’دروازے کھلنے‘ سے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے باہمی انحصار کو مزید تقویت ملنے کا امکان ہے۔

پاکستان بی آر آئی کے ایک اہم حصے کا میزبان ہے۔ وزیراعظم عمران خان ان 7 سربراہان میں سے ایک تھے جنہوں نے کانفرنس کو خطاب کیا۔ انہوں نے بی آر آئی کو ساتھ مل کر کام کرنے، شراکت داری، رابطہ کاری اور مشترکہ ترقی کا ایک ماڈل اور عالمگیریت کی طرف لے جاتے ایک نئے اور منفرد مرحلے کا آغاز قرار دیا۔ سی پیک دو طرفہ تعلقات میں مضبوط تر بنانے کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ بی آر آئی منصوبوں میں مختص کیے جانے والے ایک ہزار ارب ڈالر میں سے 72 ارب ڈالر سی پیک کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اب تک 90 ارب ڈالر کی جو سرمایہ کاری ہوئی ہے اس میں سے تقریباً 27 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان میں کی گئی۔

چین پاکستان کے ساتھ اپنی ’اسٹریٹجک شراکت داری‘ کو اہمیت دیتا ہے اور اس کی سالمیت، استحکام اور ترقی کو یقینی بنانے کی اہمیت سمجھتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان قائم باہمی اعتماد کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ پاکستان کو بھارت کے خلاف اپنی قوت مزاحمت کے توازن کو برقرار رکھنے اور افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے چین کا تعاون نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ہندوستان کبھی پاکستان کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے کے لیے تیار بھی ہوجاتا ہے تو امریکا سے زیادہ چین اور شاید روس کی مصالحت زیادہ مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

چین میں پاکستان کے لیے موقع نہایت اہم ہے۔ چین پاکستان میں انفرااسٹریکچر کی تعمیر اور صنعت کاری میں تعاون کر رہا ہے۔ یہ پاکستان کی برآمدات کے لیے ایک پھلتی پھولتی ہوئی منڈی ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستان کا مقصد چین کی پیداوار کے راستے کو اپنانے کے ساتھ ساتھ اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے سیکھ کر اس کو مزید بہتر بنانا بھی ہونا چاہیے۔ پاکستان کا مقصد 21 ویں صدی کی معاشی ساخت کے پیچھے دوڑنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ وہ اس تعاون سے ماضی یا حال کی ٹیکنالوجیز کے حصول کی کوششیں کرنی ہیں اور ساتھ ساتھ مستقبل کی ان ٹیکنالوجیز اپنے پاس لانے کے لیے کوشاں رہنا ہوگا جنہیں چین اس وقت متعارف کررہا ہے اور جن پر عمل پیرا ہے، مثلاً ہائی اسپیڈ ریل (پرانے نظام والی نہیں بلکہ جدید)، اے ون، برقی گاڑیاں، ماحول دوست توانائی، ای کامرس وغیرہ۔

پاکستان کو چاہیے وہ خود کو بہتر انداز میں منظم کرے۔ اسلام آباد کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ وہ چین سے کیا چاہتا ہے اور اسے کیا کچھ درکار ہے، اور انہیں کس طرح حاصل کیا جائے، اس حوالے سے ایک حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی۔

اس قسم کی حکمت عملی کو پالیسی، عملی اور تکمیلی سطح پر چین کے ساتھ مربوط رکھنا ضروری ہوگا۔ پاکستان کو تعاون کے ہر ایک معاملے میں پاکستان کے اندر اور باہر موجود نجی یا سرکاری شعبے سے وابستہ سب سے بہترین دستیاب تکنیکی اور انتظامی ماہرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔ ایک خودمختار سی پیک اتھارٹی کا قیام اپنی منشا کے مطابق نتائج کے حصول میں مددگار رہے گا۔

عظیم طاقت کی جاری دوڑ کے باعث رفابت سے بھرپور اس ماحول میں اسلام آباد کو اسٹریٹچک اعتبار سے واضح مؤقف اپنانا ہوگا۔ ہندوستان کی دشمنی تو مستقل جاری رہے گی، ممکن ہے کہ انتخابات کے بعد یہ دشمنی، تناؤ یا پھر دوسرے کو پچھاڑنے کی دوڑ تک محدود ہوجائے۔

امریکی ساؤتھ ایشیا حکمت عملی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان خطے میں غالب ہو۔ ایسی کسی خوش فہمی میں متبلا سوچ کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی کہ خیر سگالی یا ہوشیار سفارتکاری کے اظہار سے اس حکمت عملی کو بدلنا ممکن ہے۔ امریکا پاکستان کو اس وقت ہی مساوی نظر سے دیکھے گا جب اسے پاکستان میں پرکشش اقتصادی مواقع نظر آئیں گے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کو چین کا تعاون درکار ہے۔

پاکستان کے پاس سب سے اچھا آپشن یہی ہے کہ وہ ’خود کو چین کے ساتھ لوہے کے چھلوں کے سے باندھ دے’ کہ یہی تجویز 1962ء میں اس وقت کے وزیر خارجہ ایس کے دہلوی نے بھی دی تھی۔ اس نادر موقع کو ایک بار پھر ٹھکرانا ہمارے لیے کسی سانحے سے کم نہیں ہوگا۔بشکریہ ڈان نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …