منگل , 23 اپریل 2024

تحریکِ انصاف کہاں ہے؟

(وقاص عارف) 

وزیراعظم عمران خان جو کہ ’’ٹیم میکنگ‘‘ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، اب تک خاصے ناکام نظر آرہے ہیں۔ دو درجن کے لگ بھگ کابینہ میں نصف درجن تو دوسری پارٹیوں کے وزرا ہیں۔وزیرِ قانون فروغ نسیم اور وزیرِ آئی ٹی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا تعلق ایم کیو ایم پاکستان سے ہے اور وزیرِ ہاؤسنگ طارق بشیر چیمہ کا تعلق مسلم لیگ ق سے ہے اور بلوچستان عوامی پارٹی سے زبیدہ جلال خان اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سے فہمیدہ مرزا بھی خان صاحب کی کابینہ کا حصہ ہیں، اِس کے علاوہ شیخ رشید کی تو اپنی ہی پارٹی ہے۔

باقی جو ہیں اُن کی اکثریت نہ تو تحریک انصاف کے نظریاتی کارکنوں کی ہے اور نہ ہی تحریک انصاف اِن کی پہلی پارٹی ہے۔ جیسے پیپلز پارٹی سے سیاست کی ابتدا کرنے کے بعد آئی جے آئی اور پھر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ق اور اب تحریک انصاف کے ’’سابقہ‘‘ وزیرِ پٹرولیم غلام سرور خان، جن کو وزارت سے ہٹانے کی بات چلی تو اُن کا بیان آیا کہ اگر انھیں وزارت سے ہٹایا گیا تو وہ پارٹی چھوڑ دیں گے۔

سابقہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری مشرف دور اور پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں ترجمان کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ شفقت محمود بھی مشرف دور میں صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔استعفے کے بعد حال ہی میں دوبارہ وزیرِ پارلیمانی امور لگاںٔے جانے والے اعظم سواتی بھی 2006 سے 2011 تک وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ جمیعت علمائے اسلام ف کے ٹکٹ سے سینیٹر بھی منتخب ہوئے تھے۔

وزیرِ منصوبہ بندی خسرو بختیار اور وزیرِ توانائی عمر ایوب دونوں ہی شوکت عزیز کی کابینہ کا حصہ رہ چکے ہیں۔ بعد میں اِن دونوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اس کے علاوہ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، مشیر برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور حال ہی میں اسد عمر کے بعد کابینہ کا حصہ بننے والے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ بھی پیپلز پارٹی کے دور میں یہی ذمے داریاں نبھا چکے ہیں۔

سابقہ وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک بھی پیپلز پارٹی کا حصہ رہ چکے ہیں۔ وزیرِ نجکاری میاں محمد سومرو مشرف دور میں سینیٹ کے چیئرمین رہ چکے ہیں اور پرویز مشرف کے استعفے کے بعد کچھ عرصہ پاکستان کے صدر بھی رہے تھے۔

اور جو باقی رہ گئے، جیسے وزیرِ بحری امور علی زیدی، وزیر مواصلات مراد سعید، وزیرِ آبی وسائل فیصل واوڈا اور وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری، وہ اتنے ناتجربہ کار ہیں کہ انہیں یہ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ اپنے ماتحت بیوروکریسی کو کس طرح ہینڈل کیا جائے۔

اب سوال یہ ہے کہ وزیراعظم 22 سال سے جو جدوجہد کررہے تھے، وہ فقط سیاسی تھی یا تکنیکی لحاظ سے بھی کوئی جدوجہد کی گئی تھی؟ انتخابات سے قبل ہی ان کا ماننا تھا کہ جیت انہی کا مقدر بنے گی، لیکن پھر بھی وہی لوگ موصوف کے وزرا ہیں جنہیں ہم برسوں سے مختلف کابینہ میں دیکھتے آرہے ہیں۔ تو پھر تبدیلی کہاں ہے؟ جب ان ہی لوگوں کے بھروسے پر حکومت کرنی ہے تو پھر تحریک انصاف کہاں ہے؟بشکریہ ایکسپریس نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …