جمعرات , 25 اپریل 2024

آخر کب تک سعودی جرائم پر دنیا خاموش رہے گی

سعودی عرب میں ایک ہی دن میں 34 سے زائد شیعہ مسلمان کارکنوں کے قتل عام کی جہاں پوری دنیا میں مذمت ہو رہی ہے وہیں ٹرمپ انتظامیہ، آل سعود انتظامیہ کے اس جرائم پر پوری طرح سے خاموشی اختیار کئے ہیں۔گزشتہ منگل کے روز سعودی حکام نے ایک بیان جاری کرکے اعلان کیا تھا کہ ملک میں 37 قیدیوں کا اجتماعی سر قلم کر دیا گیا ۔

ان قیدیوں کے خلاف مجموعی طور پر متعدد ایسے الزامات عائد کئے گئے تھے جنہیں کبھی بھی عدالت میں ثابت نہیں کیا گیا تھا یا ان میں سے کئی کے خلاف تو عدالت میں مقدمہ ہی نہیں چلایا گیا ۔ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ملک میں مذہب تشیع کی تبلیغ کی ہے، جاسوسی کی ہے اور دہشت گردانہ سازشوں میں ملوث رہے ہیں ۔

مہربانی کرکے یہاں کوئی یہ سوال نہ کرے کہ کیا ان 37 افراد میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث وہ 15 ملزمان بھی شامل تھے جنہیں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے صحافی کے قتل کا براہ راست حکم دیا تھا ، جس کے بعد استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے تھے ۔
جن قیدیوں کا سعودی عرب میں ریاستی قتل عام کیا گیا ہے ان سے کسی کے خلاف بھی کھلی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا گیا، جہاں انہیں مجرم قرار دیا گیا ہو ، ایمنیسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس سال صرف 4 مہینے کے دوران اب تک سعودیہ میں 104 افراد کا سر قلم کیا جا چکا ہے جبکہ 2018 میں 149 افراد کا سر قلم کیا گیا تھا ۔

سعودی عرب میں جن 37 افراد کا سر قلم کیا گیا ہے ان میں سے کم از کم 34 شیعہ مسلمان تھے ۔ ان میں مذہبی رہنما، انسانی حقوق کے ارکان، صحافی، علماء اور وہ جوان بھی شامل ہیں جو گرفتاری کے وقت نابالغ تھے اور صرف انہیں احتجاجی مظاہروں میں شمولیت کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا ۔حکومت سعودی کی جانب سے کئے گئے اس قتل عام کو شیعہ برادری پر ایک وسیع حملہ تصور کیا جا رہا ہے۔

سعودی عدالتی نظام کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ایک وکیل ولید ابو الخیر خاتون رکن لجین الحسلیل کے خلاف حکومت کی تنقید کی وجہ سے دہشت گردانہ اقدامات کے الزام میں خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا جاتا ہے۔

حتی ایمنیسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن راٹس واچ پر سعودی حکومت نے اس لئے دہشت گردوں سے رابطے کا الزام عائد کر دیا کیونکہ ان تنظیموں نے اجتماعی طور پر سیاسی قیدیوں کو سزائے موت دینے پر اعتراض کیا ہے اور سعودی انتظامیہ کی دہشت گردی کی تعریف پر سوالیہ نشان لگایا ہے ۔

سعودی انتظامیہ دہشت گردی جیسے سنجیدہ الزامات میں سیاسی قیدیوں ایسی حالت میں اجتماعی سزائے موت دے رہا ہے کہ جب خود اس پر دنیا بھر میں انتہا پسند وہابی نظریات رائج کرنے اور تکفیری دہشت گردی کی توسیع دینے کے الزامات ہیں ۔سعودی عرب کے اس ریاستی دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر اس ملک کی اقلیت شیعہ برادری ہو رہی ہے ۔

سعودی عرب میں شیعہ مسلمانوں کو بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں اور انہیں اس ملک میں مذہبی اقلیت کا درجہ تک حاصل نہیں ہے ۔ ہر قدم پر ان کے ساتھ تعصب کیا جاتا ہے اور طرح سے اجتماعی سزائیں دے کر پوری برادری کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔گزشتہ بدھ کے روز حزب اللہ لبنان نے سزائے موت دیئے جانے والے 37 قیدیوں کے اہل خانہ کو تعزیت پیش کی ۔

حزب اللہ نے ایک بیان جاری کرکے سعودی حکومت کے اس جرائم کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ ان بے گناہ شہریوں کا صرف اس لئے سر قلم کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کی تھی ۔بشکریہ سحر نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …