ہفتہ , 20 اپریل 2024

نیوزی لینڈ کا مظلوم سری لنکا کا ظالم؟

(عارف بہار)

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد میں سری لنکا کے سفارتخانے کا دورہ کر کے وہاں ہونے والے خوں ریز بم دھماکوں پر اظہار تعزیت کیا ہے۔ شاہ محمو دقریشی نے اپنے تاثرات کتاب میں درج کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مشکل کی اس گھڑی میں اپنے دوست ملک کیساتھ ہے اور دہشتگردی کیخلاف ہر قسم کی معاونت کیلئے تیار ہے۔ بلاشبہ سری لنکا پاکستان کا علاقے میں ایک اہم دوست ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون باہمی مفاد اور اتحاد کے اصول پر قائم ہے۔ پاکستان نے سری لنکا کو خوفناک دہشتگردی سے نجات دلانے میں مرکزی کردار ادا کیا اور سر ی لنکا نے بھی عین اس وقت اپنی کرکٹ ٹیم کو پاکستان بھیجنے کا مشکل فیصلہ کیا تھا جب پوری دنیا میں پاکستان کو خطرناک ترین ملک بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔

پاکستان بدترین دہشتگردی کا شکار تھا اور کوئی غیرملکی یہاں قدم رکھنے سے پہلے سو بار سوچنے پر مجبور ہوتا تھا۔ دنیا میں پاکستان کا امیج بگاڑنے کی مہم پورے زوروں پر تھی۔ سری لنکا کی ٹیم کی یہاں آمد اس ساری فضاء کو بدلنے میں اہم کردار کی حامل تھی مگر بھارت اور دوسری ایجنسیوں نے سری لنکا کی ٹیم پر حملہ کرکے دونوں ملکوں کو اس فیصلے کی سزا دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ سری لنکا میں گرجا گھروں پر ہونے والے خوفناک دھماکوں کی گتھی اب رفتہ رفتہ سلجھ رہی ہے۔ نائن الیون کی طرح ان دھماکوں میں گوکہ مسلمان اور مسلمان نما کردار استعمال ہوئے مگر اس واردات کے ڈانڈے بھارت سے جا کر ملنے لگے ہیں۔ ان دھماکوں کے بعد بھارت کے میڈیا نے گوئبلز کی پیروی میں جس طرح دھماکوں کا سرا پاکستان کیساتھ جوڑنے کی کوشش کی تھی اور حملہ آوروں کے پاکستان کیساتھ رابطوں کا شور مچانا شروع کیا تھا اصل کہانی اور کردار سامنے آنے کے بعد وہی میڈیا اب بغلیں جھانک رہا ہے۔ بھارت کے کچھ بڑے اخبارات اب یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ حملہ آوروں کا بھارت میں آنا جانا اور کچھ لوگوں سے رابطے قائم تھے۔ نیوزی لینڈ کے واقعے نے مسلمانوں کو عالمی سطح پر مظلوم بنایا تھا۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسینڈا آرڈرن نے اس موقع جو تاریخی کردار ادا کیا تھا اس نے اسلامی تہذیب کا حقیقی اور خوبصورت چہرہ مغربی دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کو عالمی کٹہرے میں کھڑا کیا گیا تھا اور ان پر الزامات، اتہامات کے تیروں کی بارش ہو رہی تھی۔ مسلمان زمانے بھر کا تشدد بھی سہہ رہے تھے اور انہی کو ظالم اور دہشتگرد بھی بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔

داعش جیسے سفاک گروہوں کو مسلمانوں کا نمائندہ اور علامت بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔ داعش کا نام مسلمانوں جیسا تو ضرور ہے مگر اس کا شجرۂ نسب مشکوک ہے۔ عرب دنیا میں اس گروہ نے اسلام کے نام پر مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہا کر اپنے بارے میں شکوک کے سائے گہرے کئے ہیں۔ وقت ثابت کر چکا ہے کہ داعش امریکہ اور اسرائیل کی ایجاد کردہ تنظیم تھی جس سے خانۂ خدا تک محفوظ نہیں رہ سکا۔ یہ مغربی طاقتوں کا بلینک چیک ہے جس پر اس مسلمان ملک کانام ہی لکھا جاتا ہے جہاں کارروائی مقصود ہو۔ مسلمانوں پر اس تنظیم کے نام پر صرف اتنی ہی تہمت ہوتی ہے کہ اس کی کارروائی کی ذمہ داری مسلمان نام قبول کر لیتا ہے۔ نیوزی لینڈ کی مسجد میں بہنے والے لہو نے مسلمانوں اور ان کی تہذیب کی علامتوں کو زندہ کرنے اور توانائی اور احترام بخشنے میں اہم کردار ادا کیا تھا جو حجاب یورپ میں نفرت کا نشان بن رہا تھا نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے اسے قبولیت اور احترام دیا۔ نیوزی لینڈ کے عوام نے مسلمانوں کی عبادتوں اور علامتوں کو نفرت کی بجائے ہمدردی اور وقار دیا۔ لاتعداد لوگ اسلام اور مسلمانوں کو متجسس انداز میں دیکھنے لگے تھے۔ عیسائی دنیا اس اظہار ہمدردی میں پیش پیش تھی۔ سری لنکا کی دہشتگردی نے نیوزی لینڈ کے مظلوم کو ایک بار پھر ظالم بنا ڈالا۔ سری لنکا کی حکومت کو داد دی جانی چاہئے جس نے نفرت کے شعلوں کو پھیلنے اور بڑھنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی اور یوں مسلمانوں کیخلاف عالمی سطح پر نفرت کی لہر اُٹھائی نہ جا سکی۔ اس کے باوجود دہشتگردی کی پہلی زد مسلمانوں کی تہذیبی علامت نقاب پر پڑی اور سری لنکا حکومت نے اپنی پوری مسلمان دوستی کے باوجود نقاب پر پابندی عائد کردی۔ اب اس واردات میں بھارت کے کردار کے اشارے ملنا شروع ہوگئے ہیں تو یہ حقیقت عیاں ہو رہی ہے کہ بھارت اس خطے میں ایک ’’روگ سٹیٹ‘‘ ہے۔ پاکستان اس کی سازشوں اور دہشتگردی کا تنہا شکار نہیں بلکہ علاقے کے دوسرے ممالک بھی اس کی زد میں ہیں۔ سری لنکا کی دہشتگردی نے بھارت کو عالمی سطح پر بے نقاب کر دیا ہے۔

بھارت سری لنکا میں چین کے اثر ورسوخ سے خوفزدہ ہے۔ دونوں کے درمیان ایک کھینچاتانی چل رہی ہے۔ سری لنکا کو توڑ کر تامل ریاست بنانے کی کوششوں کے پیچھے ’’بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘ کا اصول تھا کہ اگر سنہالی اکثریت کا ملک پوری طرح بھارت کی جھولی میں پکے ہوئے پھل کی مانند نہیں گرتا تو کم ازکم اس کے اندر سے ایک ہندو ریاست ضرور برآمد ہونی چاہئے جو علاقائی سیاست میں بھارت کی معاون ہو سکتی ہے۔ سری لنکا نے بھارت کے اس شوق کی بہت بھاری قیمت ساڑھے تین عشروں کی دہشتگردی اور عسکریت کی صورت چکائی ہے اس عفریت کو شکست دینے میں پاکستان کا کردار مسلمہ ہے۔ اب بھی یہ شوق ترک نہیں ہوا، سری لنکا میں بنگلہ دیش کی طرح بھارت نواز حکومت کے قیام کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا تو عقوبت کے نئے انداز اور نئے جواز تلاش کئے جانے لگے۔ عیسائی دنیا کو بھی اب بھارت کے اس کردار کو پیش نظر رکھ کر اپنی حکومتوں پر زور ڈالنا چاہئے کہ وہ بھارت سے اس کردار پر ضرور بازپرس کریں۔ بھارت کا کردار صرف پاکستان کا رونا نہیں بلکہ سری لنکا سمیت پورے جنوبی ایشیا کا دکھ ہے۔ اب بھی عالمی ضمیر نے بھارت کا محاسبہ نہ کیا تو پھر اس خطے کو کسی بڑے حادثے سے بچانا ممکن نہیں رہے گا۔بشکریہ مشرق نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …