جمعہ , 19 اپریل 2024

جرمنی یورپ میں اسرائیل کا دیرینہ دوست

عالمی(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)مئی سنہ ۲۰۱۵ع‍ صیہونی یہودیوں کے سرکردگان کے لئے بہت اہم مہینہ تھا۔ انھوں نے اس سال جرمنوں کے ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات کی پچاسویں سالگرہ منائی۔ اگرچہ یورپ کے حالات و واقعات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ صہیونیت اس براعظم کے بہت سے علاقائی اور سمندرپار معاملات میں کردار ادا کر رہی ہے؛ تاہم جرمنی ـ یہودیوں کے خلاف اقدامات کی تاریخ کے حوالے سے ـ صہیونیوں کے سرکردگان کے لئے بہت زيادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ یہودی ریاست نے حالیہ برسوں کے دوران یورپی ملکوں میں مختلف تعلیمی اور ثقافتی پروگراموں کے ذریعے یہاں کے عوام پر بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی ہے اور جیسا کہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے، اسرائیلیوں نے کسی بھی یورپی ملک میں جرمنی جتنی تعلیمی اور ثقافتی سرگرمیاں انجام نہیں دی ہیں۔

ثقافتی سرگرمیاں
یہودی ریاست (اسرائیل) جرمنی میں بہت سے ثقافتی سرگرمیاں بجا لاتی ہے، اسرائیلی فنکاروں کی حمایت کرتی ہے اور جرمنی کے ساتھ فنکاروں نیز فنکارانہ کاوشوں [فلموں وغیرہ] کا تبادلہ کرتی ہے۔ جرمنوں کی سرزمین میں بصری فنون کی نمائشیں لگاتی ہے؛ یہودی ریاست کی تھیئٹر گروپ جرمنی کے دورے کرتے ہیں، یہودی ریاست کی فلم کمپنی جرمنی کے مختلف میلوں میں شرکت کرتی ہے، نیز موسیقی کے فنکاروں اور لکھاریوں کی حمایت کا حمایت کرتی ہے۔ یہ سب برلن میں یہودی ریاست کے سفارتخانے کے ثقافتی شعبے کے معمول کی سرگرمیاں ہیں۔
اس کے علاوہ علاوہ بریں، ہر سال جرمن ـ اسرائیل میلہ (۱) بھی جرمنی وزارت ثقافت کی مالی حمایت سے منعقد کیا جاتا ہے۔ اس میلے میں برلن میں مقیم اسرائیلی فنکاروں کی کاوشیں پیش کی جاتی ہیں۔ اس میلے کا آغاز سنہ ۲۰۱۵ع‍ سے ہوا ہے۔ ہر سال یہ میلہ ایک خاص موضوع متعین کرکے منایا جاتا ہے؛ مثال کے طور پر سنہ ۲۰۱۷ع‍ کا میلہ اتفاق ، ادغام (۲) کے موضوع پر منایا گیا۔ اس موضوع کے انتخاب کا مقصد یہودی ریاست کے فنکاروں کو جرمنی کے فنکارانہ ماحول کے قریب لانا تھا۔

سائنس اور ٹیکنالوجی میں تعاون
جرمنی میں یہودی ریاست کے سفارتخانے کی ویب گاہ کے مندرجات کے مطابق، یہودی ریاست اور جرمنی سائنس اور ٹیکنالوجی کے بہت سارے شعبوں میں قریبی تعاون کررہے ہیں۔ اسرائیلیوں کا دعوی ہے کہ امریکہ کے بعد، سائنس اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے، جرمنی دوسرا بڑا ملک ہے جو ان کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔ اس تعاون کا آغاز سنہ ۱۹۵۰ع‍ کی دہائی کے آخری برسوں سے ہوا ہے۔ ہالوکاسٹ کے بعد بہت سوں نے یہودی ریاست اور جرمنی کے درمیان تعلق بنانے کی کوشش کی۔ سنہ ۱۹۶۴ع‍ میں جرمن ادارہ “میکس پلانک سوسائٹی برای فروغ سائنس” (۳)، امریکی ادارہ “مینروا فاؤنڈیشن” (۴) اور یہودی ریاست کا ادارہ “وائزمین انسٹٹیوٹ آف سائنس” (۵) بھی میدان میں آئے اور فریقین کے ماہرین اور محققین کے درمیان تعاون کے لئے پروگرام مرتب کئے۔

آج یہودی ریاست اور جرمنی کے درمیان سائنس کے شعبوں میں تعاون بہت وسیع ہے اور “مینروا فاؤنڈيشن”، “جرمن وفاقی وزارت تعلیم و تحقیقات اور اسرائیلی وزارت سائنس کے درمیان تعاون کے پروگرام”، “جرمن ـ اسرائیلی فاؤنڈیشن برائے سائنسی ترقی و تحقیقات”، “مستقبل کے سلسلے میں جرمن ـ اسرائیل تعاون کے پروگرام” اور “صنعتی تحقیقات میں جرمن ـ اسرائیل تعاون” کی مالی امداد سے مختلف پروگراموں اور منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔
اس سلسلے میں مینروا فاؤنڈیشن، اہم ترین ادارہ ہے جو یہودی ریاست اور جرمنی کے درمیان تعاون کی حمایت کرتا ہے۔ یہ ادارہ جو اپنا سالانہ بجٹ جرمن حکومت سے وصول کرتا ہے، جرمنی اور یہودی ریاست کے محققین اور ماہرین کے درمیان بات چیت کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ یہ ادارہ نوجوان جرمن اور اسرائیلی محققین کو یہ امکان فراہم کرتا ہے کہ ۶ سے ۳۶ مہینوں تک کے عرصے میں میزبان ملک کے تحقیقاتی مراکز میں کام کریں۔ اس ادارے نے آج تک ۱۴۰۰ جرمن اور اسرائیلی محققین کی حمایت کی ہے۔ یہ اسکالرشپس [یا وظائف] نوجوان جرمن اور اسرائیلی سائنسدانوں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ میزبان ریاست [ملک] کے محققین و ماہرین کے ساتھ قریبی تعلق برقرار کریں۔

تحقیقاتی منصوبے
ادھر جرمن وزارت تعلیم و تحیققات اور یہودی ریاست کی وزارت سائنس، تحقیقاتی منصوبوں کی پشت پناہی کے سلسلے میں آپس میں تعاون کررہی ہیں۔ تعاون کا یہ سلسلہ سنہ ۱۹۷۳ع‍ سے شروع ہوا ہے اور اس کا مقصد ان تحقیقاتی منصوبوں کی حمایت کرنا ہے جو حیاتیاتی ٹیکنالوجی (۶)، توانائی، ماحولیات، محیطیات یا سمندری علوم، (۷)، زمینیات (۸)، علم طب، جدید مواد (۹) اور نینو مواد (۱۰) اور لیزر ٹیکنالوجی (۱۱) سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ علاوہ “جرمن- اسرائیلی فاؤنڈیشن برائے سائنسی تحقیق اور ترقی” (۱۲)، جس کی بنیاد سنہ ۱۹۸۶ع‍ میں رکھی گئی ہے، بھی جرمنی اور یہودی ریاست کے مشترکہ تحقیقی منصوبوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ اس ادارے کے ٹرسٹ بورڈ میں چار اسرائیلی اور چار جرمن شامل ہیں۔ اس ادارے کا مجموعہ سرمایہ ۱۶ کروڑ یورو ہے جو فریقین کے تعلیمی حکام کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے۔ اس ادارے نے آج تک ۳۶۰۰ منصوبوں کی حمایت اور پشت پناہی کی ہے۔

“مستقبل کے منصوبوں کے سلسلے میں جرمن ـ اسرائیل تعاون پروگرام” (۱۳) بھی فریقین کے حکام کے لئے بھی بہت اہم ہے۔ اس پروگرام کی بدیاد سنہ ۱۹۷۷ع‍ میں جرمن وزارت تعلیم و تحقیق نے رکھی تھی۔ اس پروگرام کے مطابق، مستقبل کے بارے میں کسی بھی منصوبے پر عملدرآمد کے لئے ۱۰ لاکھ ڈالر بجٹ کے طور پر مدنظر رکھے جاتے ہیں۔ یہ رقم عرصہ پانچ سال تک درخواست دہندگان کے سپرد کی جاتی ہے۔

نیز جرمنی اور یہودی ریاست کے حکام صنعتی شعبے کی تحقیق کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ اسی سلسلے میں یہودی ریاست کی وزارت صنعت و تجارت اور جرمنی کی وزارت تعلیم و تحقیق نے جون سنہ ۲۰۰۰ع‍ میں صنعتی تحقیق کے شعبے میں تعاون کے ایک مفاہمت نامے پر دستخط کئے۔ اس مفاہمت نامے کے مطابق، فریقین نے فیصلہ کیا کہ ۱۳ لاکھ یورو صنعتی تحقیقات کے لئے مختص کیا جائے۔ اس رقم کو چھوٹے اور اوسط درجے کی صنعتی تحقیق اور نئے کاموں کے آغاز پر خرچ ہونا چاہئے۔ اس کام کا مقصد الیکٹرانک، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مواصلات، بائیوٹیکنالوجی اور ماحولیاتی ٹیکنالوجی کی حمایت کرنا ہے۔

وائزین سائنس انسٹٹیوٹ
وائزمین انسٹٹیوٹ آف سائنس بھی یہودی ریاست کے اہم ترین سائنسی اداروں میں شامل ہے جو جرمنی کی جامعات اور تحقیقی مراکز کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ یہ ادارہ مقبوضہ فلسطین میں واقع ریحوووت (۱۴) نامی شہر میں واقع ہے اور یہودی ریاست کے سائنسی حلقوں میں بےپناہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس ادارے کے نئے تحقیقی منصوبے بیماریوں کے انسداد کے لئے نئے راستوں کی تلاش، ریاضیات اور کمپیوٹر سائنس کے کلیدی مسائل کے جائزے اور ماحولیات کے تحفظ کے لئے نئی حکمت عملیاں تلاش کرنے پر مرکوز ہیں۔ یہ ادارہ صرف ان جرمن طالبعلموں کو تعلیم و تحقیق کے مواقع فراہم کرتا ہے جو ایم ایس سی، ایم فل اور ڈاکٹریٹ کی سطح پر مختلف سائنسی شعبوں میں تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔
تعلیمی وظائف (۱۵)

برلن میں یہودی ریاست کے سفارتخانے کی ویب گاہ کے مطابق، یہ ریاست مقبوضہ سرزمین میں تعلیم کے جرمن شائقین کو وظیفہ اور دیگر سہولیات فراہم کرتی ہے۔ یہ وظائف ان جرمن طالبعلموں کو دیئے جاتے ہیں جو “تاریخ یہود، بین الاقوامی تعلقات، سیاسیات، عبرانی زبان اور زبان و ادب کے مضامین میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہ وظائف ان جرمن طالبعلموں کو دیئے جاتے ہیں جن کی عمریں ۳۵ سال سے زیادہ نہ ہوں اور انگریزی اور عبرانی زبان میں مہارت کاملہ رکھتے ہوں۔

یہودی ریاست یہ وظائف مختلف طریقوں سے جرمن طالبعلموں کو دے دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک وظیفہ وہ ہے جو ایک تعلیمی سال (آٹھ مہینوں) کے لئے اس ریاست میں حصول تعلیم کے رضاکار جرمن طالبعلموں کو دیا جاتا ہے جن میں ایم ایس سی، ڈاکٹریٹ اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کے طالبعلم نیز مختلف شعبوں کے محققین شامل ہوتے ہیں۔ جن طالبعلموں کو اس کورس میں داخلہ ملتا ہے وہ ماہانہ ۸۵۰ ڈالر وظیفہ لیتے ہیں اور ان کا ﺻﺣت کا بیمہ بھی کروایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود، مقبوضہ فلسطین جانے اور جرمنی واپس آنے کے اخراجات ان طالبعلموں کو خود برداشت کرنا پڑتے ہیں۔

مقبوضہ فلسطین میں عبرانی اور عربی زبان کی تعلیم
تعلیمی وظائف کے علاوہ مقبوضہ فلسطین پر مسلط یہودی ریاست جرمن طالبعلموں کو عبرانی اور عربی زبانیں سیکھنے کے لئے بھی وظائف دیتی ہے۔ جرمن طالبعلموں کو مختصر عبرانی کورس میں شرکت کے لئے حیفا یونیورسٹی میں داخلہ دیا جاتا ہے؛ اس کورس کے شرکاء کو ہفتہ وار ۳۰۰ ڈالر بطور وظیفہ دیئے جاتے ہیں۔

علاوہ ازیں، اس ریاست کی دوسری یونیورسٹیاں بھی بین الاقوامی طلبہ کو عبرانی اور عربی زبانوں کے کورس فراہم کرتی ہیں۔ یہ کورسز مختلف یونیورسٹیوں میں معمول کے مطابق مختصر مدت کے لئے منعقد کروائے جاتے ہیں۔بشکریہ روزنامہ قدس

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …