ہفتہ , 20 اپریل 2024

پاکستانی لڑکیوں کی چین اسمگلنگ کا نیٹ ورک، نئے انکشافات

(رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ)

سی پیک منصوبہ پاکستان کی معیشت کیساتھ ساتھ معاشرے اور انسانی ماحول پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں ہمسایہ ملک چین کیلئے ایک احترام پایا جاتا ہے، چین ہمارا دوست ملک ہے، ساتھ یہ گمان بھی موجود ہے کہ چینی بطور ریاست اور بطور معاشرہ ایمان دار لوگ ہین، جبکہ وہ تو اللہ پر بھی ایمان نہیں رکھتے۔ یہ پاکستانی شہریوں کی سادگی ہے کہ جلد اعتماد اور اعتبار کر لیتے ہیں۔ چین نے پاکستان میں جس طرح جڑیں پھیلانی شروع کی ہیں، اس پر موجودہ وزیراعظم سمیت کئی لوگوں کو شبہات ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ کسی غیر ملک کو اپنی سرزمین پہ کاروبار اور سرمایہ کاری کی اجازت اور تجارتی معاہدون کیساتھ اپنے معاشرے میں اندھا دھند گھسنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اپنے شہریوں کیلئے بھی آگہی فراہم کی جائے کہ وہ کسی دوسرے ملک سے آنیوالوں کیساتھ تعلقات میں احتیاط برتیں۔ یہ حکمرانوں کی غفلت کا نتیجہ ہے کہ چینی کمپنیوں کو ٹھیکے دے دیئے گئے ہیں، لیکن وہ ایک طرف پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں، دوسرے پاکستانی خواتین کی ناموس پائمال کر رہے ہیں۔

اسکی زندہ مثال یہ ہے کہ پاکستانی لڑکیوں کو 18 لاکھ سے 35 لاکھ روپے کے عوض چین سمگل کرنے کا گینگ مبینہ طور پر اس شخص نے قائم کیا، جو جھنگ کے علاقے حویلی بہادر شاہ میں توانائی کے ایک منصوبے کے سلسلے میں پاکستان آیا تھا۔ پچھلے چند روز کے دوران وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے) فیصل آباد، لاہور اور راولپنڈی میں متعدد چھاپے مار کر گینگ کے کچھ کارندوں کو گرفتار کرچکی ہے، جس میں چینی شہری اور ان کے پاکستانی سہولت کار شامل ہیں۔ اس ضمن میں ایک قانون نافذ کرنے والے ادارے کی خفیہ رپورٹ کے مطابق کچھ چینی شہریوں نے ایڈن گارڈن کے علاقے میں 30 ہزار روپے ماہانہ کرایے پر مکان حاصل کیا اور ایک تعمیراتی منصوبے سے وابستگی ظاہر کرکے وہاں رہنے لگے، جو 9 ماہ قبل مکمل ہوا تھا، حتیٰ کہ انہیں مقامی پولیس کی جانب سے سکیورٹی بھی فراہم کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق منصوبے کی تکمیل کے بعد چینیوں نے شن شن شیانہے کی سربراہی میں ایک گروہ تشکیل دیا، جو غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی پاکستانی مسیحی لڑکیوں کی چینی شہریوں سے شادی کروا کر انہیں اسمگل کرتے تھے۔

شن شیانہے نے اگست 2018ء کو اپنے برادر نسبتی وینگ پینگ کو پاکستان بلوایا، جو خود بھی گینگ کا سرگرم کارکن تھا، شن شیانہے اس کی اہلیہ اور اس کے والد چین میں ایک شادی دفتر چلاتے تھے، جہاں سے وہ چینی لڑکوں کی تصاویر "وی چیٹ” ایپلیکیشن کے ذریعے مقامی ایجنٹس کو بھجواتے تھے۔ جس کے بعد ایجنٹس وہ تصاویر مسیحی گھرانوں کو دکھا کر انہیں شادی کرنے کے لیے راضی کرتے تھے اور گینگ چینی لڑکوں سے فی شادی 18 سے 35 لاکھ روپے وصول کرتی تھی۔ گینگ کا سرغنہ شن شیانہے اور وینگ پینگ مقامی ایجنٹس کے ذریعے مسیحی لڑکیوں کا سراغ لگاتے تھے، جنہیں شادی طے ہو جانے کی صورت میں 50 سے 70 ہزار روپے دیئے جاتے تھے۔ جس کے بعد یہ دونوں غریب علاقوں کے گرجا گھروں میں جاتے تھے اور اس دوران مسیحی خاندانوں کو اس بات کی یقین دہانی کرواتے کہ چینی لڑکے بھی عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، بدھ مت سے نہیں۔ رپورٹ کے مطابق شادی کے تمام اخراجات دلہا ادا کرتا تھا اور اپنے سسرالیوں کو بھی مالی معاونت فراہم کرتا تھا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ چینی دلہے فیصل آباد آکر ایڈن گارڈن والے گھر میں رہتے تھے اور جب تک اپنی بیویوں کے ہمراہ واپس چین نہیں چلے جاتے، اس وقت تک شن شیانہے کو ایک ہزار سے 5 ہزار روپے روزانہ کرایا دیتے تھے۔ لڑکیوں کی چین اسمگلنگ کا یہ کاروبار صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں انسانی حقوق کی تنظیم (ایچ آر ڈبلیو) نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ میانمار سے ہزاروں خواتین اور لڑکیوں کو ملازمت کا جھانسا دے کر چین لایا گیا۔ جہاں انہیں نہ صرف دلہن کے طور پر چینی خاندانوں کو فروخت کر دیا گیا بلکہ کئی سالوں تک جنسی غلام بنایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق جو فرار ہونے میں کامیاب ہوئیں، ان میں زیادہ تر کو اپنے بچے چھوڑنے پڑے، صحافیوں نے کمبوڈیا، لاؤس، شمالی کوریا اور ویت نام سے بھی دلہنوں کی اس قسم کی اسمگلنگ کی اطلاعات دی ہیں۔ 26 اپریل کو جاری کیے گئے ایک بیان میں ایچ آر ڈبلیو نے پاکستانی خواتین اور لڑکیوں کو چین میں جنسی غلام بنائے جانے کے واقعات میں اضافے پر چین اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ دلہنوں کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ چند روز قبل پیپلز کالونی کے ڈی گراؤنڈ سے کچھ چینی شہریوں کو اور ان کے معاونین کو ایک شادی کی تقریب سے گرفتار کیا گیا، جن سے تفتیش کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ گینگ کے مقامی افراد سے مربوط روابط تھے۔ ذرائع کے مطابق مقامی سہولت کار چینی لڑکوں کو امیر کبیر ظاہر کرکے غریب گھرانوں کو ان کی بیٹیوں کی شادی چینی شہریوں سے کرنے پر راضی کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور مزید ایجنٹوں کو آئندہ آنے والے دنوں میں گرفتار کیے جانے کی امید ہے۔ یہ پاکستان کے وقار اور عزت کا معاملہ ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تجارت اور ترقی کے نام پر غیر محسوس طور پر چین کی بے خدا تہذیب کے ہاتھوں اپنی قوم کی اساس داؤ پر لگا بیٹھیں۔ اس سے قبل کراچی میں ٹیکنیکل طریقے سے اے ٹی ایم کارڈز کے ذریعے سینکڑوں پاکستانیوں کو لوٹا گیا، کئی لوگوں کو کاروبار کے بہانے چین بلا کر انہیں قید کر لیا گیا، اسی طرح پاکستان میں کام کرنیوالی درجنوں چینی کمپنیوں نے پاکستانی سب کنٹریکٹرز کو ان کے پیسے ادا نہیں کیے، حکام کو اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے توجہ کی ضرورت ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …