ہفتہ , 20 اپریل 2024

عمران خان خود کو بدلیں

(انصار عباسی)

تحریک انصاف کی حکومت اور اس کو لانے والے کسی بڑی خوشخبری کے انتظار میں ہیں۔ آیا یہ خوشخبری وہی ہے جس کاکوئی ایک دو ماہ پہلے وزیراعظم عمران خان نے ذکر کیا اور عوام سے درخواست کی تھی کہ سمندر میں کھدائی جاری ہے، دعا کریں تیل نکل آئے یا کسی اور اچھی خبرکی بات ہو رہی ہے۔ پاکستان کے عوام کو واقعی کسی بڑی خوشخبری کی ضرورت ہے کیونکہ جو کچھ تحریک انصاف کی حکومت کر رہی ہے اُس سے اِس کے مخالف تو کیا، اپنے حمایتی بھی مایوس ہو رہے ہیں۔ تمام دعوے، سب وعدے، سارے خواب ایک ایک کرکے چکنا چور ہو رہے ہیں۔ مہنگائی جو پہلے ہی آسمانوں کو چھو رہی ہے، میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ایک اور پٹرول بم عوام پر گرانے کے بعد ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا گیا کہ اب بجلی مزید مہنگی ہونے والی ہے۔ جب پٹرول مہنگا ہوگا، جب بجلی کی قیمت مزید بڑھا دی جائے گی تو اس سے سب کچھ مہنگا ہو گا لیکن افسوس عمران خان اور اُن کی حکومت کا اب بھی سارا زور وعدوں پر ہے کہ حالات آنے والے دنوں، مہینوں اور برسوں میں بہتر ہو جائیں گے۔ یہ سب کچھ گزشتہ نو ماہ کے دوران بھی کہا گیا لیکن اچھا کچھ نہیں ہو رہا۔ جو ہو رہا ہے وہ بُرا ہی ہو رہا ہے اور حکومت کے اقدامات بھی ایک ایک کرکے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ جو کچھ اُس نے پہلے کیا، اُس میں اسے ناکامی ہی ملی۔

پہلے سب سے بڑی امید کی کرن اسد عمر تھے تو اب اُنہیں نکال باہر کیا کہ وہ پرفام نہیں کر سکے۔ نئے مشیرِ خزانہ آ گئے لیکن کاروباری حالات اب بھی بدتر بلکہ بدترین ہیں۔ اسد عمر کو نکالنے کے بعد اور نئے مشیرِ خزانہ کو لانے پر بھی ملکی معاشی حالات خرابی کی طرف گامزن رہے تو عمران خان نے گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر کو اچانک تبدیل کر دیا۔ نئے گورنر اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے لایا گیا ہے جبکہ فرگوسن سے تعلق رکھنے والے شبر زیدی کو چیئرمین ایف بی آر بنانے کا اعلان کیا گیا۔ ویسے تو سیاسی حلقوں اور میڈیا میں ان تعیناتیوں پر بھی بڑے سوال اٹھے لیکن کاش کوئی عمران خان صاحب کو سمجھائے کہ ایسی ہزار تبدیلیاں اور کرلیں ملک کے معاشی حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ حالات بدلنا ہیں تو عمران خان صاحب کو اپنے آپ کو بدلنا ہوگا، اُنہیں اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہوگی۔ چاہے اُن کی نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، چاہے وہ اپنے آپ کو کتنا ہی قابل اور محنتی سمجھتے ہوں، معیشت بہتر اور کاروباری حالات کو سازگار بنانا ہے تو پھر ملک میں سیاسی استحکام لانے اور متفقہ معاشی پالیسی بنانے کے لیے چارٹر آف اکانومی (Charter of Economy) پر اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کریں۔ مگر یہ وہ کام ہے جس سے خان صاحب کو چڑ ہے۔ عمران خان کا اصل زور خود بھی اپوزیشن کو چور ڈاکو کہنا اور اپنے پارٹی رہنمائوں سے بھی ایسا ہی کہلوانا ہے، جس کی وجہ سے سیاسی حالات کشیدہ اور عدم استحکام کا شکار ہیں۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے جو رہنما اکثر ٹی وی ٹاک شوز میں حصہ لیتے ہیں اُن کی اکثر وزیراعظم عمران خان سے میڈیا اسٹرٹیجی میٹنگ میں بریفنگ ہوتی ہے، جس میں اُنہیں کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن کو چور ڈاکو کہو اور مہنگائی سمیت ہر ناکامی کی ذمہ داری (ن) لیگ اور پی پی پی کی گزشتہ حکومتوں پر ڈالتے رہو۔ جب حالات یہ ہوں گے تو پھر معیشت کی بہتری کیسے ممکن ہے؟

میں جس بھی کاروباری شخصیت سے ملتا اور کاروباری حالات کے متعلق پوچھتا ہوں تو ہر کوئی یہی بتاتا ہے کہ کاروبار ٹھپ ہے، کوئی فرد پیسہ لگانے کے لیے تیار نہیں۔ پیسہ یا تو ملک سے باہر لے جاکر وہاں کاروبار کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں یا پھر کاروباری افراد نے کیش، بانڈز اور ڈالرز اپنے پاس رکھ لیے ہیں اور اچھے وقت کے انتظار میں ہیں کہ حالات بہتر ہوں گے تو ہی کاروبار میں پیسہ لگائیں گے۔ اگر حالات ایسے ہی رہے اور وہ خوشخبری بھی نہ آئی جس کا حکومت اور حکومت کو لانے والوں کو شدت سے انتظار ہے تو پھر کل کیا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔بشکریہ جنگ نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …