ہفتہ , 20 اپریل 2024

امریکہ سے امریکی زبان میں مذاکرات

(تحریر: شہاب شہسواری)

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ شمالی کوریا 18 ماہ تک بیلسٹک میزائلوں اور جوہری ہتھیاروں کے تجربات مکمل طور پر روکنے کے بعد بھی ڈونلڈ ٹرمپ سے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہونے سے مایوس ہو چکا ہے لہذا پیانگ یانگ نے جمعرات 9 مئی کے دن جدید میزائل کا تجربہ کر کے امریکی حکام کو نئے انداز میں اپنے مطالبات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کم رینج والے ایسے میزائل کا تجربہ جو امریکہ کے میزائل ڈیفنس سسٹم سے بچ کر نکل جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کی جانب سے مسلح افواج کو آمادہ باش کے حکم سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امریکہ کے مقابلے میں نئے راستے کا انتخاب کر چکے ہیں۔ پیانگ یانگ نے حال ہی میں امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ رواں برس کے آخر تک شمالی کوریا سے متعلق اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرے ورنہ کوریا جزیرے میں دوبارہ ماضی کے حالات واپس پلٹ آئیں گے۔ یاد رہے شمالی کوریا نے 2017ء سے میزائل تجربات روک رکھے تھے اور گذشتہ ہفتے اس کا میزائل تجربہ 18 ماہ بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی مخالفت میں پہلا اقدام تھا۔ چند ماہ پہلے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے دوسری بار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ویت نام میں ملاقات کی لیکن یہ مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہوئے۔

شمالی کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی نے اعلان کیا ہے کہ کم جونگ ان نے اپنی مسلح افواج کو پوری طرح تیار رہنے اور جنگی انتظام اپناتے ہوئے ہر قسم کے ہنگامی حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو جانے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے یہ حکم امریکہ کی جانب سے شمالی کوریا کی ایک تجارتی بحری جہاز روکنے کے بعد جاری کیا ہے۔ امریکہ نے بحیرہ قلزم میں شمالی کوریا کا یہ تجارتی بحری جہاز یہ کہہ کر روک دیا کہ اس میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئلہ منتقل کیا جا رہا تھا۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے کہا: "کسی ملک میں پائیدار امن اور سکیورٹی صرف اس ملک کی قومی خود ارادیت اور ملکی سالمیت کا دفاع کرنے والی فورسز کے طاقتور ہونے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔” انہوں نے مزید کہا: "اصلی محاذ اور مغربی محاذ پر دفاعی فورسز کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ جنگ میں حصہ لینے کے قابل ہو سکیں اور ہنگامی حالات سے مقابلہ کرنے کیلئے جنگی انتظام اختیار کر سکیں۔” شمالی کوریا کے اخبار چوسن سینبن نے اپنی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ شمالی کوریا سے مذاکرات کا موقع ضائع کر دیتا ہے تو دونوں ممالک کے درمیان جوہری جنگ کا امکان پایا جاتا ہے۔

گذشتہ ایک ہفتے کے دوران شمالی کوریا کی جانب سے یہ دوسرا میزائل تجربہ ہے۔ اس سے پہلے شمالی کوریا نے بحیرہ قلزم کی طرف کئی میزائل فائر کئے تھے جبکہ اس بار شمالی کوریا کے سرکاری خبررساں ادارے نے انجام پانے والے میزائل تجربے کو کامیاب قرار دیا ہے۔ حالیہ تجربے میں نئی قسم کا میزائل متعارف کروایا گیا ہے۔ میڈیا ذرائع کے مطابق یہ نیا میزائل جاپان اور جنوبی کوریا میں نصب امریکہ کے میزائل ڈیفنس سسٹم سے بچ کر نکل جانے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ روئٹرز کے مطابق اس میزائل کا پہلا تجربہ گذشتہ ہفتے ہفتہ کے روز کیا گیا تھا لیکن جمعرات کو دوسرا تجربہ کیا گیا جس کی تصاویر میڈیا پر شائع کی گئی ہیں۔ ان تصاویر کے ذریعے عالمی ذرائع ابلاغ پہلی بار اس نئے اسلحے سے آشنا ہوئے جس کا وعدہ شمالی کوریا پہلے سے دے چکا تھا۔ روئٹرز کے مطابق یہ میزائل چھوٹا، زیادہ رفتار والا اور زیادہ صلاحیتوں کا حامل ہے۔ اس تجربے کے بارے میں جنوبی کوریا کی آرمی نے بھی رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جمعرات کے روز دو میزائلوں کا تجربہ کیا گیا جنہیں شمالی کوریا کے دارالحکومت پیانگ یانگ کے شمال مغرب میں واقع شہر کوسونگ سے فائر کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک میزائل نے 420 کلومیٹر جبکہ دوسرے نے 270 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا اور دونوں میزائلوں نے 50 کلومیٹر بلندی پر اڑان بھری۔

جنوبی کوریا کے صدر مون جانی نے شمالی کوریا کی جانب سے ان میزائل تجربات کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں شمالی کوریا کے اس اقدام کو امریکہ سے مذاکرات رک جانے پر اعتراض قرار دیا ہے۔ امریکہ کے جیمز مارٹن اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے ماہر گرس لیو اس بارے میں روئٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں: "شمالی کوریا کی جانب سے دوسری بار میزائل تجربہ انجام دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اقدام امریکہ کو اشتعال دلانے اور واشنگٹن کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے کیلئے انجام پایا ہے۔ وہ ایسے میزائل نصب کر رہے ہیں جو قابل اعتماد ہیں اور امریکہ کے میزائل ڈیفنس سسٹم سے عبور کر کے جنوبی کوریا میں مطلوبہ ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔” شمالی کوریا کے یہ میزائل تجربات عین اس وقت انجام پائے ہیں جب امریکہ بحیرہ قلزم میں فوجی اقدامات میں مصروف ہے۔ امریکی مسلح افواج نے گذشتہ ہفتے بدھ کے دن بحیرہ قلزم میں بین البراعظمی میزائل منٹمن 2 کا تجربہ کیا جبکہ فلوریڈا کے ساحل سے زمین سے سمندر میں مار کرنے والے ٹرائی ڈنٹ 2 میزائل کا تجربہ کیا جو آبدوز سے بھی فائر کیا جا سکتا ہے۔

امریکہ اور شمالی کوریا کی جانب سے یہ میزائل تجربات ایسے وقت انجام پائے ہیں جب شمالی کوریا کیلئے امریکی وزیر خارجہ کا خصوصی نمائندہ جنوبی کوریا میں موجود ہے تاکہ شمالی کوریا سے مذاکرات آگے بڑھانے کیلئے جنوبی کوریا کے حکام سے بات چیت کر سکے۔ اسٹیون بیگن نے جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ کانگ کیانگ وا سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ مذاکرات کی میز پر واپس آنے کیلئے شمالی کوریا کیلئے دروازے کھلے ہیں۔ یاد رہے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان آخری مذاکرات کے دوران امریکی صدر غیر متوقع طور پر مذاکرات ختم کر کے ویت نام سے واپس چلے آئے تھے۔ اسلحہ سے متعلق امور کی ماہر ملیسا ہاٹ مین نے روئٹرز کو بتایا: "ٹرمپ حکومت شمالی کوریا کے ان میزائل تجربات کو یہ کہہ کر کم اہمیت ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ بین البراعظمی میزائل نہیں تھے اور امریکہ تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے لیکن یہ ایسے میزائل ہیں جو جنگ شروع ہونے کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ میزائل چھوٹے ہیں اور آسانی سے چھپائے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح یہ جاننا بھی مشکل ہے کہ ان پر کس قسم کا وار ہیڈ نصب کیا گیا ہے۔ جبکہ یہ میزائل جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔”

شمالی کوریا کے دفاعی پروگرامز پر نظر رکھنے والی نیوز ویب سائٹ 38 نارتھ کا کہنا ہے کہ اس ملک کی جانب سے حال ہی میں ٹیسٹ کئے جانے والا میزائل بہت حد تک روسی ساختہ اسکندر SS-26 میزائل سے ملتا جلتا ہے۔ اس قسم کے میزائلوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ پرانے کم رینج والے بیلسٹک میزائلوں کے برعکس اسکاڈ بی میزائل کی طرح کم بلندی پر اڑان بھر سکتے ہیں اور سمندر کی سطح سے زیادہ سے زیادہ 50 کلومیٹر بلندی تک پرواز کے قابل ہیں۔ اس حد تک بلندی کے باعث آسمان میں ان میزائلوں کی سمت تبدیل کرنا ممکن ہے اور جی پی ایس اور گلوناس رشیا کے ذریعے ان کا نشانہ تبدیل کیا جا سکتا ہے اور وہ اپنے نشانے کو انتہائی دقت سے تباہ کر سکتے ہیں۔ ان معلومات کے باوجود اس میزائل کی نوعیت مکمل طور پر عیاں نہیں ہے۔ اس ویب سائٹ کے مطابق شمالی کوریا کی جانب سے اس نئی ٹیکنالوجی کے حصول کے بارے میں تین قسم کے احتمال پائے جاتے ہیں:
1)۔ شمالی کوریا نے اسکندر میزائل براہ راست روس سے حاصل کئے ہیں یا ایسے تیسرے ملک سے حاصل کئے ہیں جس نے روس سے یہ میزائل خریدے تھے،
2)۔ تیسری ملک کی جانب سے ریورس انجینئرنگ کے تحت اسکندر میزائل کا ایک تیار کیا گیا نمونہ حاصل کیا گیا ہے،
3)۔ شمالی کوریا نے اسکندر میزائل کی ٹیکنالوجی سے متعلق دستاویزات حاصل کر کے یہ نیا میزائل تیار کیا ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …