بدھ , 24 اپریل 2024

بھارتی انتخابات

(ظہیر اختر بیدری)

بھارت میں انتخابی مرحلے تیزی سے مکمل ہو رہے ہیں اور امید ہے کہ اسی ماہ میں بھارت کے انتخابات مکمل ہو جائیں گے۔ بھارت کی آبادی اور اس کی جغرافیائی لمبائی چوڑائی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت میں انتخابی عمل مہینوں میں مکمل ہوتا ہے جب کہ پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں عام انتخابات کا عمل ایک ہی روز میں مکمل کر لیا جاتا ہے، جب کہ بھارت میں انتخابی عمل مہینہ لے لیتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت جیسے آبادی کے حوالے سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک میں جو جغرافیائی حوالے سے مشکل ترین حصوں میں بٹا ہوا ہے جہاں انتخابی عمل میں طوالت ایک فطری بات ہے۔ بھارت میں بھی انتخابات کے دوران ہنگامے ہوتے ہیں اور عوام کا نقصان بھی ہوتا ہے، کچھ لوگ اپنی جان سے ہاتھ بھی دھو بیٹھتے ہیں لیکن ملک کی آبادی جغرافیائی حوالے سے راستوں کی دشواریوں وغیرہ کے تناظر میں بھارتی انتخابات کو مجموعی طور پر پُرامن ہی کہا جا سکتا ہے۔ بھارتی انتخابات کی اس کی ہیئت ترکیبی کے حوالے سے نہ صرف اس علاقے میں بلکہ ساری دنیا میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اور علاقے میں موجود ملکوں کے حکمرانوں کو بھی بھارتی انتخابات کے نتائج کا شدید انتظار ہتا ہے۔

پاکستان بھارت کا پڑوسی ملک ہے ایک ہزار سال تک بھارت ایک متحدہ ملک رہا لیکن 1947ء میں اس ایک ہزار سالہ یکجہتی کا شیرازہ بکھر گیا۔ متحدہ بھارت میں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان آباد ہیں انگریزوں نے اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کے تحفظ کی خاطر جاتے ہوئے کچھ ایسے مسائل نئے ملکوں کے نئے حکمرانوں کے گلے ڈال دیے جو دونوں ملکوں کے لیے 71 سال سے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ ان مسائل میں کشمیر کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ اس مسئلے کی وجہ عوام کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ دونوں غریب ملک اپنے وسائل کا ایک بہت بڑا حصہ ہتھیاروں کی تیاری اور مغربی ملکوں سے خرید پر لگایا جا رہا ہے جسے بھارت کے اور پاکستان کے غریب عوام کی ترقی پر لگایا جاتا تو ان دونوں ملکوں میں رہنے والے عوام کا معیار زندگی اونچا ہو سکتا تھا اور وہ 50 فیصد آبادی جو غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے غربت کی دیوار پھلانگ سکتی تھی۔

بدقسمتی سے بھارت کا حکمران طبقہ جو بھارت کو دنیا کے سامنے ایک سیکولر ملک کی حیثیت سے پیش کرتا ہے، اپنی کشمیر پالیسی کی وجہ نہ صرف معاشی مشکلات کا شکار ہے بلکہ اس کا سیکولر کردار بھی متاثر ہو رہا ہے۔

بھارت کے عوام ماضی قریب تک سیکولر ازم کے حامی تھے بھارت کا دانشور طبقہ اس حقیقت سے آشنا تھا کہ ایک پرامن دنیا کا مستقبل سیکولر ازم سے مشروط ہے لیکن اسے ہم ساری دنیا کی بدقسمتی کہیں یا بھارتی اور پاکستانی عوام کی بدقسمتی کہ برصغیر کے ایک ارب کے لگ بھگ عوام کے گلے میں کشمیر ایک ہڈی بن کر پھنسا ہوا ہے۔ اس حوالے سے بھارتی عوام کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بھارت میں مذہبی انتہا پسندی تیزی سے عوامی سطح پر فروغ پا رہی ہے اور بی جے پی جیسی مذہبی انتہا پسند جماعت دو بار انتخابات جیت کر اقتدار میں آ چکی ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ خدانخواستہ اس بار بھی بی جے پی انتخابی اکھاڑے کی ونر جماعت نہ بن جائے۔

بھارتی عوام کو پاکستانی عوام کے مقابلے میں زیادہ لبرل کہا جاتا ہے لیکن اب بھارتی عوام بوجوہ مذہبی ہوتے جا رہے ہیں جس کا اندازہ بی جے پی جیسی مذہبی انتہا پسند جماعت کے دو بار برسر اقتدار آنے سے کیا جا سکتا ہے اگر بھارتی عوام کا مقابلہ پاکستانی عوام سے کیا جائے تو یہ حیرت انگیز حقیقت سامنے آتی ہے کہ عملاً پاکستانی عوام بھارتی عوام کے مقابلے میں زیادہ لبرل ہیں کہ انھوں نے 71 سالوں کے دوران ایک بار بھی مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہیں دیے۔

بھارت کا دانشور طبقہ مذہبی انتہا پسندی کا سخت مخالف اور سیکولر ازم کا سخت حامی ہے لیکن اس شرمناک حقیقت کی کیا تاویل کریں کہ آج گجراتی مسلمان عوام کے قاتل کی حیثیت سے شہرت پانے والا نریندر مودی بھارت کا وزیر اعظم بنا ہوا ہے اور ہندو مذہب کو بھارت کا سرکاری مذہب بنانے کے شوشے چھوڑتا رہتا ہے۔ بابری مسجد کے انہدام اور اس کی جگہ رام مندر کی تعمیر بی جے پی کے منشور کا حصہ ہے۔ بھارت کو پاکستان کے مذہبی ریاست ہونے کا سخت گلہ ہے لیکن اس شرم ناک حقیقت کا کیا جواز ڈھونڈا جائے کہ بی جے پی کے منشور میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر ایک سیاسی کلنک کی طرح موجود ہے۔

آج دنیا دہشت گردی کے جس آزار میں مبتلا ہے اس کی شروعات میں مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے مسئلے کا بڑا دخل ہے۔ وہ طاقتیں خواہ ان کا تعلق فکری ایلیٹ سے ہو یا حکمران طبقات سے کیا وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے مسائل دہشت گردی کو فکری کھاد فراہم کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں بھارتی عوام سے یہ امید بے جا نہیں کہ وہ انتخابات میں ایسی لبرل سیکولر جماعتوں کو ووٹ دیں گے جو کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں اور بھارت کے سیکولر ازم میں جان ڈالنے کی اہلیت بھی رکھتی ہوں۔بشکریہ ایکسپریس نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …