ہفتہ , 20 اپریل 2024

غزہ میں فلسطینی مزاحمتی اسلحہ اسرائیلی حکمت عملی کی راہ میں بڑی رکاوٹ!

فلسطینی تجزیہ نگار اور فیوچر اسٹڈی سینٹر کے رکن ڈاکٹر ولید عبدالحی نے کہا ہے کہ اسرائیل کی راہ میں فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کاروں کا اسلحہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اسرائیل غزہ کو مزاحمتی اسلحہ سے پاک کرنے کے لیے بار بار جنگیں مسلط کرنے اوراقتصادی ناکہ بندی جیسے جرائم کا ارتکاب کرتا رہے گا تاکہ غزہ کے عوام کو فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ‘فیس بک’ پر ‘غزہ کہاں جا رہا ہے؟’ کےعنوان سے پوسٹ ایک مضمون میں ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت سیکیورٹی ادارے عالمی، علاقائی اور مقامی سطح پر صہیونی ریاست کے تزویراتی ہدف کو کامیاب بنانے میں تل ابیب کی مدد کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید لکھا کہ امریکا کے "صدی کی ڈیل” کے ڈرامے کو عمل شکل دینے کا آغاز ہوچکا ہے اور اس مقصد کے لیے فلسطینیوں اور عربوں سے ان کی اراضی خرید کی جا رہی ہے۔ امریکا ، اسرائیل اور ان کےبعض عرب حواری یہ سمجھتے ہیں کہ صدی کی ڈیل کو عملی شکل دینے اور اسے آگے بڑھانے کی راہ میں غزہ میں فلسطینیوں کی مزاحمتی اسلحہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

انہوں‌نے خبردار کیاکہ اگر فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی کے شعبے میں تعاون اور معاونت کرسکتی ہے تووہ صہیونیوں کے ساتھ فلسطین کے سودے بازی کے لیے خفیہ مذاکرات اور غزہ کو اسلحہ سے پاک کرنے کا سمجھوتہ بھی کرسکتی ہے۔

ڈاکٹر ولید عبدالحی کاکہنا ہے کہ بہ ظاہرفلسطینی اتھارٹی نے ‘صدی کی ڈیل’ کو مسترد کیا ہے مگر عملاً وہ اس کے لیے ماحول ساز گار کررہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ زبانی کلامی صدی کی ڈیل کی مخالفت اورعملا اس کے لیے راہ ہموار کرنے میں سے کون سے بھی بات زیادہ اہم ہے۔ صدی کی ڈیل میں امریکا فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر اسرائیلی قبضہ تسلیم کرانے کی کوشش کرے گا اور فلسطینی اتھارٹی اسی منصوبے کے تحت اسرائیلیوں کےساتھ تعاون کررہی ہے۔

انہوں‌نے کہاکہ اسرائیلی جیلوں میں قید 670 صہیونی ایجنٹوں کی رہائی کے بعد انہیں فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں میں اہم عہدوں پرتعینات کیاگیا ہے اور یہ تمام اسرائیل کے لیے کام کرتے ہیں۔ ثقافتی پروگرامات کی آڑ میں اسرائیلی نوجوانوں کے گروپ فلسطینی معاشرے میں سرایت کرکے اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کررہےہیں اورانہیں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے معاونت مل رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی اور تنظیم آزادی فلسطینی کےذیلی ادارے عضو معطل ہوکر رہ گئےہیں۔

فلسطینی تجزیہ نگار کاکہناہے کہ غزہ کی پٹی کا اسرائیل، مصر اور فلسطینی اتھارٹی کی سے محاصرہ اسرائیلی انتہا پسندوں کی طے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہے۔وہ فسلطینیوں کی مزاحمتی پالیسی کے جواب میں اقتصادی ناکہ بندی کی پالیسی پرعمل پیرا ہیں۔ غزہ میں فلسطینی تنظیموں کا غیرمسلح ہونا اور اسلحہ اسرائیل کے حوالے کرنا غزہ میں غرب اردن جیسے حالات پیداکرے گامگر غزہ میں فلسطینی مزاحمتی قوتوں کا ہتھیار پھینکنے کا کوئی پروگرام نہیں اور ایسا کرنا محال ہے۔بشکریہ مرکز اطلاعات فلسطین

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …