منگل , 23 اپریل 2024

یوم اقدس کی اہمیت و افادیت

مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کے ان اساسی اور بنیادی مسائل میں سے ایک ہے، جس نے گزشتہ کئی عشروں سے امت مسلمہ کو بے چین کررکھا ہے۔ارض فلسطین جسے انبیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے اور بیت المقدس جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے اس وقت سے غاصب صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے، جب سے ایک عالمی سازش کے تحت برطانیہ اوراس کے ہم نواؤں کی کوششوں سے دنیا بالخصوص یورپ کے مختلف علاقوں سے متعصب یہودیوں کو فلسطین کی زمین پر بسایا گیا۔صہیونیوں کے اس سرزمین پر آتے ہی وہاں کے مقامی فلسطینی باشندوں کو کنارے لگادیا گیا اور آہستہ آہستہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم اس سطح پر پہنچ گئے کہ فلسطینیوں کو ہاتھ اپنے ہی ملک میں تیسرے درجے کا شہری بننا پڑا یا مجبور ہوکر انہیں ترک وطن کرنا پڑا ۔۔۔

مسلمانوں کے قبلہ اول پر اسرائیل نے غاصبانہ قبضہ کیا ہواہے اور چن چن کر مسلمانوں کو گولی کے نشانے پر رکھ کر قتل کیا جارہا ہے اور دنیا خاموش ہے اور انسانی حقوق کے اداروں کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے ۔

امام خمینی (رح) کی دور اندیش قیادت نے فلسطین کے مسئلے کو عالمی اور تمام امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ قرار دینے کے لئے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو دنیا بھرمیں فلسطینی مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے یوم القدس منانے کا اعلان کیا جمعۃ الوداع کے دن یوم القدس منانے کے اعلان نے دنیا بھر میں فلسطین کے مسئلے کو زندہ کردیا۔

غاصب صہیونی ریاست کے ناجائز قیام سے لے کر اب تک اگر اس ظالم ریاست کے ظلم و تشدد اور مظلوم فلسطینیوں پر روا رکھے جانے والے انسانیت سوز اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اسرائیل نے آج تک جو کچھ کیا ہے، اس کے پیچھے مغرب اور امریکہ کی بھرپور حمایت تھی۔ اسرائیل کے مظالم کے خلاف عالمی اداروں میں کئی دفعہ قراردادیں آئیں، لیکن امریکہ نے کبھی بھی ان قراردادوں کو منظور نہیں ہونے دیا اگر کبھی غلطی سے کوئی قرارداد امریکہ کے ویٹو سے بچ بھی گئی تو اسرائیل نے امریکہ اور مغربی ملکوں کی حمایت کی وجہ سے اسے کبھی بھی قابل توجہ اور قابل عمل نہیں سمجھا۔

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورت حال پر اقوام متحدہ کے مقرر مبصر کو استعفیٰ دینا پڑا اس کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے اس کو فلسطینی علاقوں میں جانے سے روک دیا ۔

انھوں نے کہا کہ اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں میں قائم فیکٹریوں کی وجہ سے فلسطینیوں کی صحت پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں، اسرائیل کی جانب سے یہودی آبادکاروں کے لیے مکانات کی تعمیر عالمی دباؤ کے باوجود نہیں روکی جارہی اس طرح مغربی کنارے پر مکمل قبضہ کے لئے اسرائیل نت نئے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے انہوں نے کہنا تھا کہ اسرائیل کو سبق سکھانے کے لئے اُس کی تمام مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیا جائے ۔

اگر اسرائیل کے خلاف آواز نہ اٹھائی جائے تو مظالم میں اور اضافہ ہوسکتا ہے ۔ کیا یہ مناسب ہے کہ جو ظالم ہمارے مسلمان بھائیوں کو پانی تک کے لئے مجبور کردیں اور ہم انھی غاصبوں کی پراڈکٹس کا ایک بڑا حصہ خرید کر ان کو مزید سپورٹ کریں ؟ کیا اس طرح ہم بھی ان کے مظالم میں ان کی مدد نہیں کر رہے ہیں؟

جی ہاں اب ہماری اہم ذمہ داری ہے کہ زیادہ سے زیادہ اسرائیلی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کریں۔ اس طرح اس کی معیشت پر کاری ضرب پڑے گی اور اسے فلسطینی عوام کے تعلق سے اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑے گا۔ ماضی میں اسرائیلی مظالم کے خلاف مسلمانوں نے اس کے پراڈکٹس کا بائیکاٹ کیا تھا جس کے مثبت اثرات برآمد ہوئے۔ موجودہ حالات میں،جبکہ ساری دنیا اسرائیلی مظالم پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور مسلم ممالک کی بے حسی نے صورت حال کو مزید نازک بنادیا ہے ۔ ایسے میں مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیلی پراڈکٹس جیسے نیسلے ، کیاڈبریس، پیپسی، کنلے، جانسن اینڈ جانسن، کوکاکولا وغیرہ کا بائیکاٹ کریں۔

یوم القدس اس بات کا بہترین موقع ہے کہ ہم امت واحدہ کی صورت میں اپنے تمام تر فروعی اختلافات اور مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے قبلۂ اوّل کی آزادی کے لئے سراپا احتجاج بن جائیں ۔یہ قانون قدرت ہے کہ جب ظلم انتہا سے بڑھ جائے تو حالات اپنا رخ بدل لیتے ہیں اور مظلوموں کی چیخ و پکار ظالموں کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کا باعث بن جاتی ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …