ہفتہ , 20 اپریل 2024

زوال پذیر شیطانی اتحاد اور سرخرو ہوتا ایران

(رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ)

دنیا میں شر کی علامت امریکی حکومت نے صہیونی ریاست کی حمایت میں کمر کس لی ہے، لیکن اشرار خود بھی ڈوبیں گے اور شیطانی سپر پاور کا غرور بھی خاک ہو جائیگا۔ ہر امریکی چال ہو، ایران بڑی آسانی سے جوابی وار کے ذریعے کمزور اقدام ثابت کر دیتا ہے۔ ایرانی تیل کی برآمد کے متعلق پابندیوں کے بعد سعودی تیل بردار جہاز حملوں کی زد میں ہیں۔ خلیج میں موجود امریکی بیڑے میں شامل اسپین نے بحری جنگی جہاز واپس بلا لیا۔ یہ اس خوف کی علامت ہے، جس سے مغربی طاقتیں لرزہ براندام ہیں۔ امریکی بیڑے سے الگ ہونے کے بعد ہسپانوی حکام کی جانب سے جاری بیان میں کہا ہے کہ امریکا نے مشن کے مقاصد تبدیل کر دیئے ہیں اور واشنگٹن نے تمام توجہ ایران کے مبینہ حملے کے خطرے پر مرکوز کر دی ہے۔

ہسپانوی وزیر دفاع اسے امریکی فیصلے کا احترام بھی کہہ رہے ہیں اور یہ بتا رہے ہیں کہ امریکہ نے ہسپانوی حکومت سے طے شرائط کے بر خلاف فیصلہ کیا۔ اس معاملے میں یورپ کا حوالہ اور دنیا میں موجود اضطراب بھی ظاہر ہوتا کہ اسپین یورپی یونین میں رہتے ہوئے ہمیشہ ایک سنجیدہ اور قابل اعتماد پارٹنر کی طرح عمل کرے گا۔ 215 رکنی ہسپانوی فریگیٹ کی قیادت امریکی ائیر کرافٹ کیرئیر یو ایس ایس ابراہم لنکن کر رہا تھا۔ اسی خوف کے پیش نظر امریکہ نے تہران کے پڑوسی ملک عراق میں اپنے سفارتخانے اور قونصل خانے سے غیر ضروری عملے کو فوری طور پر ملک سے نکل جانے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔

اسی طرح امریکی محکمہ خارجہ نے بغداد میں امریکی سفارتخانے اور اربیل میں موجود قونصل خانے کے غیر ہنگامی عملے کو ہدایات دی ہیں کہ وہ جتنا جلدی ممکن ہو عراق سے نکل جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عراق میں موجود جرمن اور ڈچ فوج نے بھی عراقی فوجیوں کی تربیت کا سلسلہ روک دیا ہے۔ امریکی فوج کا کہنا ہے کہ انہیں خطے میں ایران کی حمایت یافتہ فورسز کے حوالے سے بعض خفیہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جس کے بعد مشرق وسطیٰ میں امریکیوں کے لیے خطرے کی سطح کو بڑھا دیا گیا ہے۔ تاہم شدت پسند تنظیم داعش کیخلاف قائم ہونے والے عالمی اتحاد کے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے نائب کمانڈر کرس گھیکا یہ کہہ چکے ہیں کہ عراق اور شام میں ایران کے حمایت یافتہ فورسز سے کوئی خاص خطرہ نہیں ہے، تاہم اب امریکہ نے ان کے اس بیان کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے سفارتی عملے کو انخلا کا حکم دے دیا ہے۔

دنیا یہ سوال پوچھ رہی ہے کہ امریکہ سفارتی عملے کو کیوں نکال رہا ہے۔؟ شرق و غرب میں سازشوں، دھمکیوں، پابندیوں اور جنگوں کے ذریعے دہشت پھیلانے امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت کے حکام اور شہریوں کی سلامتی ہماری اولین ترجیح ہے اور ہمیں یقین ہے کہ عراقی سکیورٹی سروسز ہمارے تحفظ کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں، تاہم اس وقت خطرہ بہت زیادہ ہے اور ہم کوئی رسک نہیں لینا چاہتے۔ امریکی فوج کے سینٹرل کمانڈ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انہیں امریکہ اور اتحادیوں کی جانب سے سنگین خطرے کی مصدقہ اطلاعات ملی ہیں، جس کے بعد عراق اور شام میں موجود تمام سروس ممبرز کو الرٹ رہنے کی ہدایات کر دی گئی ہیں اور صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔

جرمنی کے وزارت دفاع نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جرمن آرمی نے عراق میں اپنے ٹریننگ پروگرامز معطل کر دیئے ہیں۔ ترجمان وزارت دفاع نے بتایا کہ ہمیں ایران کے حمایت یافتہ فورسز کی جانب سے حملوں کے خطرات کا اشارہ ملا ہے، تاہم عراق میں موجود 160 جرمن فوجیوں کو براہ راست کوئی دھمکی موصول نہیں ہوئی۔ ہالینڈ کے وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ عراق میں ڈچ فوجیوں نے بھی نامعلوم خطرات کے پیش نظر ٹریننگ مشن معطل کر دیا ہے۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے بتایا ہے کہ رواں ماہ مائیک پومپیو نے عراقی کمانڈرز کو کہا تھا کہ ان کے پاس خفیہ اطلاعات ہیں، جن کے مطابق ایران کے حمایت یافتہ نیم فوجی جنگجوؤں نے ان فوجی اڈوں کی جانب اپنے راکٹس کا رخ کر رکھا ہے، جہاں امریکی فوجی تعینات ہیں۔

یہ امریکہ کی جانب سے پیغام واضح تھا اور وہ یہ کہ امریکی اس بات کی ضمانت چاہتے تھے کہ عراق امریکیوں کو درپیش اس خطرے سے محفوظ رکھے۔ امریکہ نے یہ کہہ دیا تھا کہ اگر عراقی سرزمین پر امریکہ حملے کی زد میں آیا تو وہ اپنے دفاع کیلئے بغداد کو اعتماد میں لیے بغیر ہی یکطرفہ کارروائی کا حق رکھتا ہے۔ اس حوالے سے عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے گذشتہ دنوں کہا تھا کہ انہیں ایسی کوئی سرگرمی نظر نہیں آئی، جس سے کسی فریق کو خطرہ لاحق ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عراق میں داعش کو شکست دینے میں ان نیم فوجی دستوں نے اہم کردار ادا کیا، جن کی تربیت ایران نے کی اور انہیں اسلحہ بھی فراہم کیا۔ گذشتہ برس ان دستوں کو باضابطہ طور پر عراقی فوج میں شامل کر لیا گیا تھا، تاہم یہ اب بھی کسی حد تک اپنی مرضی سے آپریٹ کرتے ہیں۔

لیکن اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ امریکی دستوں کو درپیش خطرات کی باتیں امریکہ کی جانب سے شروع کی گئی نفسیاتی جنگ کے سلسلے کی ہی کڑی ہے۔ امریکہ سعودی حلیفوں کیساتھ مل کر جو کھیل رچانا چاہتا ہے، اسے ہمیشہ ہی ناکامی کا سامنا رہتا ہے، شام، عراق، فلسطین اور اب یمن میں تباہی کے ذمہ دار براہ راست یہ سہ فریقی اتحاد ہے، جس کا مقصد اسرائیل کا تحفظ ہے، جس کی قیادت امریکہ کے پاس اور سعودی عرب ایک مہرہ ہے۔ پاکستانی ہونے کے ناطے ہمارے لیے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ کس طرح ہماری دھرتی کے سپوت سعودی عرب میں بیٹھ کر اس کھیل کو دیکھ رہے ہیں، یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس کھیل کا اہم کردار ہوں۔ ایسی صورتحال میں ہمارے دفتر خارجہ کو سی پیک کی کامیابی کیلئے کتنا مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، اس کا احساس کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ ایران امریکہ کیخلاف طویل جنگ میں ہمیشہ سے کامیاب ہے، یہ کامیابی عالمی عادلانہ اسلامی نظام کی برقراری پر منتج ہوگی، ان شاءاللہ۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …