ہفتہ , 20 اپریل 2024

رب کعبہ کی قسم، علی (ع) کامیاب ہوئے

(تحریر: عمران خان)

جائے سجدہ لہو لہو ہو، شگافتہ سر ہو، چہر مبارک پہ بجائے تکلیف و کرب کے سکون و اطمینان ہو اور اس تکلیف دہ نازک موقع پہ ”فزت و رب الکعبہ” کا لافانی جملہ ادا کرے، یہ کمال، یہ دسترس فقط امیر کائنات کو ہی زیبا ہے۔ اس میں یقینا کوئی خاص مصلحت ہی تھی کہ اللہ رب العزت نے امام اول امام علی علیہ السلام کی ظاہری حیات مبارکہ کا سفر اپنے گھر (بیت اللہ) سے شروع کرا کے اپنے ہی گھر (مسجد کوفہ ) میں اختتام کیا۔ وگرنہ امیر شام کے نمک خواروں نے امام علی علیہ السلام سے متعلق اتنا زہریلا پروپگینڈہ عوام میں کیا تھا کہ ضربت اور شہادت علی (ع) کی خبر بعض عاقبت نااندیشوں کیلئے باعث افسوس کے بجائے باعث حیرت تھی کہ امام علی علیہ السلام نماز ادا کرتے تھے۔ انہی فتنہ پروروں کی نسلیں آج بھی علی (ع)، اولاد علی (ع) اور محبان علی (ع) کیخلاف مسجد، منبر سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی میں سرگرم ہیں اور محبان علی (ع) کو زک پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں، مگر یہ حقیقت بھی مسلمہ ہے کہ کوئی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لے نہ ہی فضائل و مراتب علی (ع) کو گھٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہی محبان کے قلوب سے ان کی محبت کو نکالا جا سکتا ہے۔

یہ امر بھی اپنی جگہ کہ علی (ع) کی ذات اقدس کوحق و باطل کے مابین کسوٹی قرار دیا گیا ہے تو اس کی وجہ ہی یہی ہے کہ کعبہ میں ولادت سے لیکر مباہلہ و غدیر اور جنگ خندق میں ”علی ایمان کل” کی حدیث مبارکہ سے ہوتے ہوئے حالت نماز میں افضل ترین رکن نماز ”سجدہ” کی ادائیگی کے دوران ضرب شہادت تک یعنی ”فزت و رب الکعبہ” تک اللہ رب العزت کی جانب بار بار فضائل علی (ع) سے بندوں کو روشناس کرایا گیا۔ کوئی تو میثم، ابوذر کی طرح حکم الہی کے تابع ہوئے اور کوئی مروان، ابن معلجم اور امیر شام کی طرح اپنے نفس کا طوق گلے میں لٹکائے الہی فیصلوں اور احکام کی راہ میں حائل رہے۔ علی (ع) سے محبت اور علی (ع) سے بعض و دشمنی رکھنے والوں کے مابین دنیا اسی طرح تقسیم ہوئی کہ جس طرح حق و باطل یا ظالم و مظلوم کے مابین منقسم ہوئی۔ آج بھی مذہب و مسلک، قوم ، قبیلہ، رنگ ، نسل زبان کی تفریق کو بالائے طاق رکھ کر دیکھ لیں توبین الاقوامی سطح پہ دو بڑے گروہ دیکھائی دیں گے ۔ ایک وہ کہ جو علی (ع)، اولاد علی (ع) سے محبت، الفت رکھتے ہیں اور ان کی تعلیمات سے استفادہ کرتے ہیں اور دوسرے وہ کہ جو علی (ع)، اولاد علی (ع) سے کینہ و بعض رکھتے ہیں اور علی سے محبت رکھنے والوں کے خلاف نفرت، جنگ و جدل کے نقارے بجا رہے ہیں۔ عصر حاضر میں آپ ان گروہوں کو فلسطین، یمن، شام، عراق سمیت دنیا بھر کے مختلف محاذوں پہ مصروف جنگ دیکھ سکتے ہیں۔

تاریخ بشریت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی وہ ہستی ہیں کہ جن کی ولادت سے شہادت تک کا سفر خدا کے گھر سے شروع ہو کر خدا کے گھر میں ہی اختتام پذیر ہوا۔ آپ اسلام و پیغمبر اسلام کے حامی و ناصر بن کر اس دنیا میں تشریف لائے۔ آپ کے فضائل و مراتب و مناقب کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ 13 رجب المرجب آپ کی ولادت باسعادت خانہ کعبہ میں ہوئی۔ اس دنیا میں تشریف لانے کے بعد آپ نے آنکھیں نہیں کھولیں، روایات میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اپنے ہاتھوں پہ لیا، تو آپ نے آنکھیں کھولیں اور نبی کریم کے رخ انور کی زیارت کرکے تبسم فرمایا۔ بعض روایات کے مطابق آپ نے بطور پہلی غذا حضرت محمد مصطفی (ص) کے دہن مبارک سے حاصل کی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس ہستی کا نام ہے کہ جنکی توصیف اور مدح و ستائش کے لئے دنیا کے نابغہ اور عظیم انسانوں نے ہر دور میں اپنے قلم کو جنبش دی ہے، مگر تمام تر کاوشوں کے باوجود کسی نے ذات علی کو بطور کامل و اکمل نہ خود پہچانا اور نہ دوسروں سے روشناس کرایا۔

ابو تراب، ابوالحسن، ابوالقسم، الہاشمی، سفیر خدا، شیر خدا، حیدر کرار، غیر فرار، مرتضی، نفس رسول، لسان اللہ، یداللہ، کرم اللہ، وجہہ اللہ آپ کے معروف القاب ہیں۔ حضور نبی کریم نے بارہا آپ کے فضائل و مراتب اہل اسلام و اہل دنیا پر واضح کئے۔ آپ کو کرم اللہ وجہہ اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کا چہرہ مبارک کبھی بتوں کے سامنے جھکا ہی نہیں۔ آپ فصاحت و بلاغت کے قلزم اور علوم پر اس طرح حکومت رکھتے تھے کہ حدیث مبارکہ ہے میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ مفسرین بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث مبارکہ اس بات کا فیصلہ ہے کہ حصول علم کیلئے بہرحال در علی (ع) سے رجوع کرنا پڑیگا۔ آپ کو پیغمبر اسلام اور اسلام کا حامی و ناصر اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ اسلام کی پہلی دعوت پر جس آواز نے لبیک کہا اور نبی کریم کا ساتھ دینے کا اعلان کیا، وہ آواز حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تھی۔ اسی طرح جب جنگ خندق میں عمرو بن عبدود نامی مشہور پہلوان ایک نسبتا کم چوڑی جگہ سے خندق پار کرکے نبی اقدس کے خیمے کے باہر آن پہنچا اور اہل اسلام کو للکارنے لگا تو نبی کریم نے فرمایا کہ ہے کوئی ایسا جو اس بدزبان کی زبان بند کرے۔ اس دوران ایک صحابی نے بتایا کہ اے نبی: یہ اتنا بڑا پہلوان اور جنگجو ہے کہ ایک جنگ میں اس کے ہاتھ سے ڈھال گر گئی تو اس نے جانور کو اٹھا کر ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ جناب علی المرتضی (ع) اپنی جگہ سے اٹھے اور میدان میں جانے کی اجازت طلب کی۔

رسول پاک (ص) نے آپ (ع) کو اپنے ہاتھوں سے گھوڑے پر سوار کرایا اور فرمایا کہ آج کل کا کل ایمان، کل کے کل کفر کے مقابلے میں جا رہا ہے۔ روایات میں ہے کہ عمر بن عبدود کے ساتھ جنگ میں آپ کے سر اقدس میں ایک زخم آیا۔ تاہم آپ نے عمرو پر ایسا وار کیا کہ وہ دو حصوں میں زمین پر آن گرا۔ عمرو کے گرنے سے جو گرد اڑی تو اسلامی لشکر نے یہ سمجھا کہ شائد حضرت علی شہید ہوگئے ہیں، مگر جب گرد چھٹی تو آپ کے ہاتھوں میں عمر و کا سر تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متبسم ہوئے اور فرمایا کہ علی کا یہ ایک وار ثقلین کی عبادات سے افضل ہے واضح رہے کہ ثقلین کائنات کو کہا جاتا ہے۔ اس طرح ایک مقام پر نبی کریم نے ارشاد فرمایا کہ تم سب میں بہترین فیصلے کرنے والا علی المرتضی ہے ایک اور مقام پر فرمایا علی کا چہرہ دیکھنا بھی عبادت ہے پھر فرمایا خدا اور اس کے رسول کو علی بہت محبوب ہے۔

اسی طرح نبی کریم سے جب صحابہ کرام نے مسلمان اور منافق کی علامات دریافت کیں تو آپ نے فرمایا: "تمہیں جس پر شبہ ہو، تم اس کے سامنے علی کا ذکر شروع کر دو، اگر اس کے چہر ے پر ذکر علی سے تبسم آئے تو سمجھو کہ مومن ہے اور اگر رنگت زرد ہو جائے یا رنگت متغیر ہو تو سمجھ لو کہ منافق ہے۔” اسی طرح حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ انصار میں سے ہیں اور ہم منافقوں کو علی مرتضی سے بغض و عناد کی وجہ سے پہچان لیتے تھے۔ منقول ہے کہ جنگ احد میں آپ کی پنڈلی میں ایک ایسا تیر لگا جو کہ ہڈی سے پھنس چکا تھا۔ اس کو نکالنے کی کوشش کی گئی مگر کامیابی نہ ملی، تو حضور اکرم نے فرمایا کہ علی جب حالت نماز میں ہوں تو اس وقت یہ تیر نکالا جائے۔ چنانچہ دوران نماز آپ کی پنڈلی سے وہ تیر نکالا گیا، جو کہ باآسانی نکل آیا۔ مفسرین کے مطابق حالت نماز میں آپ کا جسم انور انتہائی نرم ہوجاتا اور ملاقات خدا میں محو ہوتے۔ اسی طرح جب آیہ مباہلہ نازل ہوئی تو حضور نبی کریم بچوں میں حضرت حسنین کریمین، مستورات میں جناب سید النسا العالمین حضرت فاطمہ زہرا اور نفوس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے ساتھ لے گئے۔

آپ (ع) راتوں کو جاگ جاگ کر یتیموں کی خبر گیری کرتے، بیماروں کی عیادت، غریبوں کی مدد اور غلاموں سے شفقت فرماتے۔ کوئی سوالی کبھی خالی ہاتھ آپ کے ہاں سے واپس نہ گیا۔ یہاں تک کہ آپ نے حالت رکوع میں انگشتری زکوا فرمائی۔ روایات میں ہے کہ نبی کریم، علی المرتضی، سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین مسلسل تین روز تک اپنی افطاری سائل کو خیرات کرتے رہے اور خود پانی پی کر شکر بجالاتے رہے، جسے اللہ رب العزت نے پسند فرمایا۔ یقینی طور پر جس ہستی کے اتنے فضائل، مراتب ہوں، اسی کو ہی فزت ورب الکعبہ کا دعوی زیبا ہے۔ 19 ماہ رمضان 40 ہجری آپ فجر کی نماز سے قبل مسجد کوفہ میں تشریف لے گئے۔ ابن ملجم نامی خارجی مسجد میں الٹا سویا ہوا تھا، آپ (ع) نے اپنے قاتل کو جگایا اور ارشاد فرمایا کہ نماز ادا کرلو۔ اس ملعون خارجی نے حالت سجدہ میں آپ (ع) کے سر اقدس پر زہر سے بجھی تلوار کا ایک وار کیا۔ جس سے آپ کا سر اقدس شگافتہ اور رخ انور لہو میں تر ہوگیا۔ بعض کتب کے مطابق ابن ملجم کا وار آپ کے سر اقدس کے عین اسی مقام پر لگا جہاں جنگ خندق میں عمرو بن عبدود کا وار لگا تھا۔

فطرت انسانی کا تقاضہ ہے کہ اگر انسان کو کوئی کاری ضرب لگے تو بے ساختہ وہ درد کا اظہار کرتا ہے، اگر حواس قابو میں ہوں تو جوابی وار کیلئے لپکتا ہے، مگر تاریخ شاہد ہے کہ حضرت علی المرتضی نے زہر سے بجھی تلوار کا وار سہہ کر بھی نہ کوئی چیخ و پکار کی، نہ اپنے دشمن پر اظہار غضب کیا، بلکہ آپ کے لبوں سے ایک فصیح و بلیغ جملہ ادا ہوا، فزت ورب الکعبہ، رب کعبہ کی قسم کہ میں کامیاب ہوگیا۔ آپ (ع) نے اپنے خیر خواہوں اور ورثا کو قاتل کے ساتھ مروت و مہربانی کی تلقین کی، یہاں تک کہ اپنے لئے لایا گیا شربت دیکھ کر فرمایا کہ میرا قاتل گھبرایا لگتا ہے، لہذا یہ شربت اسے پلاو۔ یعنی شدید زخمی حالت میں بھی دنیائے انسانیت کو حقوق انسانی کا درس دیتے رہے، اپنے عمل سے بتاتے رہے کہ ایک انسان کے کیا حقوق ہیں۔ کائنات میں ایسی مثال کہیں نہیں ملتی کہ مضروب اپنے قاتل کے ساتھ خود بھی مہربانی کرے اور ضرب کھانے کے بعد اپنے ورثا کو بھی اس سے مہربانی کی تلقین کرے۔ واللہ اپنے قاتل سے ایسا حسن سلوک صرف وہی ہستی ہی اپنا سکتی ہے، جو کعبہ میں ولادت سے حیات کا سفر شروع کرکے حالت سجدہ میں اس اعلان کے ساتھ تمام کرے کہ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …