ہفتہ , 20 اپریل 2024

نریندر مودی کی دوسری فتح

(حیدر جاوید سید)

بھارت کے مرحلہ وار مرکزی انتخابات کے دوران 69فیصد رائے د ہندگان گھروں سے نکل کر پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچے اور بی جے پی جیت گئی۔ 18نشستوں پر آنجہانی بال ٹھاکرے کی پارٹی بھی جیتی ہے۔ اندرا گاندھی کا پوتا خاندانی نشست سے ہارا لیکن دوسری نشست سے جیت کر اسمبلی میں پہنچ گیا۔ سنی دیول سمیت بہت سارے اداکار بھی بی جے پی کے ٹکٹ پر جیتے، اندرا گاندھی کی ایک بہو مانیکا گاندھی بھی جیت گئیں۔ کانگریس دوسری بڑی پارٹی ہے اس کے اتحادیوں کی نشستیں جمع بھی کرلی جائیں تو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ فقیر راحموں کو ان خواتین و حضرات سے دلی ہمدردی ہے جو پچھلے دو تین دن سے سیکولر بھارت میں ہندوتوا کی عظیم الشان کامیابی پر چیں بجبیں ہو رہے ہیں۔ ان سب نے غالباً جناح صاحب کی 11اگست 1947ء والی تقریر پڑھی سنی نہیں۔ عجیب سی بات ہے ہم ( یہاں ہم سے مراد مختلف الخیال اسلام پسند ہیں) پاکستان میں اپنے عقیدے کا اسلامی نظام چاہتے ہیں مگر بھارت میں ہندوتوا کو انسانیت، امن اور علاقائی سلامتی کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ بانجھ فکر کے حامل سیاسی مذہبی رہنماؤں اور نوحہ خواں اہل دانش کو کون سمجھائے کہ بھارت میں نظام حکومت کی لگام کس جماعت کے ہاتھوں میں پکڑانی ہے اس کا فیصلہ کرنے کا حق بھارتی عوام کو ہے۔ معاشی’ سیاسی اور سماجی یکتا کے محاذوں پر بدترین ناکامیوں کے باوجود ڈالے سے 69فیصد ووٹوں کی زیادہ تعداد بی جے پی یا یوں کہہ لیجئے نریندر مودی کے حصے میں آئی۔ کانگریس کا اپوزیشن اتحاد ”بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا” ٹھوس متبادل پروگرام کی عدم موجودگی اور پچھلے پانچ برسوں کے دوران کی مسترد شدہ کارکردگی کے سوا اس کے دامن میں کچھ نہیں تھا۔ مودی نے ہندوتوا اور بھارتی قوم پرستی کا کامیابی سے استعمال کیا۔ وہ بھارتی عوام کو یہ باورکروانے میں کامیاب رہے کہ داخلی مسائل اور خارجی خطرات کا مقابلہ بی جے پی کی مستحکم حکومت ہی کرسکتی ہے۔ بھارتی رائے دہندگان کی اکثریت نے ان کی بات مان لی اور مرکزی اسمبلی کی تین سے زیادہ نشستیں ان کی جھولی میں ڈال دیں۔

تجزیہ نگاروں خصوصاً پاکستانی تجزیہ نگاروں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پلوامہ اٹیک نے بی جے پی کی بکھری قوت کو یکجا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ بھارت کے الیکٹرانک میڈیا نے مودی کو بھارت ماتا کے ایک ایسے فرزند کے طور پر اُجاگر کیا جو رام ولکھن کی طرح دھرتی ماں کی حفاظت کرے گا۔ بی جے پی کو مالی انتخابی معاونت بھی سب سے زیادہ ملی، بھارتی میڈیا نے بھرپور مدد کی یہاں تک سہارا گروپ نے ان کی جماعت کے اشتہارات نشر کرنے پر نصف قیمت کی رعایت دی۔ تاجروں اور صنعتکاروں کی تنظیموں نے بی جے پی کی دل کھول کر مدد کی۔ مضبوط بھارت’ مسئلہ کشمیر پر مودی کی پالیسی کے علاوہ بھارتی پائلٹ کی پاکستان کی جانب سے رہائی کو بھی بی جے پی کی طاقت کے آگے پاکستان کے سپر ڈالنے کی طرح بنا کر پیش کیا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بدترین غربت وپسماندگی کا شکار بھارتی شہریوں نے ہندوتوا کے مذہبی عقیدے کو معروضی حالات اور مسائل پر ترجیح دی۔ اب سوال یہ ہے کہ یہاں پاکستان میں ہمیں بی جے پی کی فتح پر نوحہ خوانی سے پھپھولے پھوڑنے کا شوق پورا کرتے رہنے پر اکتفا کرنا ہے یا ان حقائق کو تسلیم کرنا جو بی جے پی کی مسلسل دوسری بار کامیابی کا ذریعہ بنے۔ کھلے دل سے تسلیم کیا جانا چاہئے کہ پلوامہ واقع’ پائلٹ کی رہائی’ مسعود اظہر وجیش محمد کے حوالے سے بھارت نے خارجی وداخلی محاذوں پر جو حکمت عملی اپنائی بی جے پی نے مہارت کیساتھ اس کا فائدہ اٹھایا۔ لوگ ان مشکلات ومسائل کو بھول گئے جن سے پچھلے پانچ برسوں کے دوران دوچار رہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت میں اس وقت مودی کے مقابلہ میں ملکی سطح کا کوئی دوسرا رہنما دستیاب نہیں۔ اندرا گاندھی کا پوتا اور پوتی مخصوص حلقوں یعنی بھارتی عوام کے خاص طبقات کیلئے کشش ضرور رکھتے ہیں مگر رائے دہندگان کی اکثریت نے موجودہ حالات میں ملک کی قیادت ان کے ہاتھوں میں دینے سے انکار کر دیا، وجہ یہی ہے کہ مودی نے ثابت کیا کہ وہ ایک قوم پرست بھارتی راہنما ہیں یہ ثابت عملی طور پر ہوا یا محض پروپیگنڈے کے محاذ پر؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ انتخابی سیاست میں حقائق سے زیادہ پروپیگنڈے کی بھرمار رائے دہندگان کو متاثر کرتی ہے۔ خود ہم اپنے ہاں کے پچھلے انتخابات میں تماشے دیکھ چکے ہیں، نوے فیصد میڈیا نون لیگ اور پیپلز پارٹی کیخلاف دو دھاری تلوار بنا ہوا تھا اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

پلوامہ اٹیک کے بعد بھارت نے جس طرح ماسٹر مائنڈ کے طور پر پاکستان بیس ایک تنظیم پر الزام عائد کرکے پاکستان کو سہولت کار کے طور پر ملکی اور عالمی سطح پر پیش کیا اور جس طرح بھارتی میڈیا نے نریندر مودی کے اس موقف کو لیکر طوفانی پروپیگنڈہ کیا اس کا توڑ نہیں ہوسکا۔ موجودہ حالات میں درست بات یہ ہوگی کہ ہم بھارت میں مودی سرکار کے تسلسل پر منہ بسورتے اور ہندوتوا کا رونا روتے رہنے کی بجائے اپنے معاملات کو دیکھیں۔ یہ بجا ہے کہ بھارت اور پاکستان میں کم نہیں زیادہ لوگوں کی دال روٹی نفرت کی سیاست پر چلتی ہے۔ بھارت کے حالیہ انتخابی نتائج میں ہمارے لئے بہت سارے اسباق موجود ہیں۔ سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ خدائی فوجدار بننے کے شوق سے نجات حاصل کرکے اس ملک کے عوام کے حقیقی مسائل کو سنجیدگی کیساتھ سمجھا جائے۔ یہ امر بجا ہے کہ بھارت سے بہتر تعلقات برابری کی بنیاد پر استوار ہونے چاہئیں ناکہ جی حضوری اور کمزوری ظاہر کرکے لیکن یہ بھی دیکھنا اور سوچنا ہوگا کہ کیا نفرت کا جواب نفرت ہی ہے؟ حرف آخر یہ ہے کہ مودی سرکار کا سابقہ طرزعمل اپنی جگہ البتہ اب بدلتے ہوئے حالات میں انتظار کرنا ہوگا کہ وہ پالیسیوں میں تبدیلی لاتی ہے یا سابقہ پالیسیوں کو آگے بڑھاتی ہے۔بشکریہ مشرق نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …