بدھ , 24 اپریل 2024

جرمنی میں اسرائیلی بائیکاٹ تحریک پابندیوں کا ہدف کیوں بنی؟

حال ہی میں جرمنی کی وفاقی پارلیمنٹ ‘Bundestag’ میں‌ ایک ایسی بحث چھیڑی گئی جس نے جرمنی کو ایک بار پھرعالمی سطح‌ پرانسانی حقوق کے حلقوں میں‌ متنازع بنا دیا۔’Bundestag’ جرمن پارلیمنٹ کی عمارت کی عمارت میں ہونےوالی بحث میں اسرائیلی ریاست کی مصنوعات کے بائیکاٹ کے لیے سرگرم بین الاقوانی تحریک’بی ڈی ایس’ کی سرگرمیوں کو غیرقانونی قرار دیا گیا۔ یہ اقدام ایسے ہی ہے جب کسی سے بھیڑے اور اس کا شکار بننے والے جانور کےدرمیان انصاف کی بات کی جائے تو منصف بھیڑیے کی حمایت کرے اور شکار کو ظالم قرار دے ڈالے۔ جرمنی نے ‘بی ڈی ایس’ کے بارےمیں وہی موقف اختیار کیا ہے جو اس سے قبل صہیونی ریاست اور امریکا اختیار کرچکےہیں۔ اسرائیل یا امریکا کی طرف سے ‘بی ڈی ایس’ کے خلاف موقف قابل فہم ہے مگر جرمنی کی طرف سے ایسا کرنا حیران کن ہے۔

جرمن پارلیمنٹ نے اسرائیلی بائیکاٹ تحریک کو سام دشمن تنظیم قرار دیا اور کہا کہ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک کو نازیوں کے بائیکاٹ کے مترادف قرار دیا۔

رواں سال فروری میں امریکی کانگرس نے ایک قرارداد منظورکی جس میں کہا گیا تھا کہ ہر وہ حکومت،تنظیم یا ادارہ جو اسرائیلی ریاست کے بائیکاٹ کے لیے کام کرنے والی عالمی تحریک’ بی ڈی ایس’ کی حمایت کا مرتکب پایا گیا تو اسے بلیک لسٹ‌ کیاجائے گا۔’بی ڈی ایس’ کے خلاف امریکی کانگرس میں قرارداد اور دوسرےبڑےملکوں کی طرف سے صہیونی ریاست کی طرف داری خطرناک اور قابض دشمن کی جانب داری کے مترادف ہے۔ یہ سارا تماشا ایک ایسے وقت میں رچایا جا رہا ہے جب امریکا ‘صدی کی ڈیل’ کی سازش متعارف کرانے کی کوشش کررہا ہے۔

مجرم کی طرف داری
سچ یہ ہے کہ یورپی ملکوں‌ کی نام نہاد جمہوریت اور آزادی ایک ڈھکوسلا اور پرلے درجے کا جھوٹ ہے۔ جرمن پارلیمنٹ میں بی ڈی ایس تحریک بھیڑیے کی حمایت اور اس کی طرف داری کے مترادف ہے۔ اسرائیلی جرائم کی پردہ پوشی بھیڑیے کی مدد کے مترادف ہے۔ سنہ 1948ء کے بعد اب تک عالمی سطح‌پر ایسی کئی قراردادیں منظور ہوچکی ہیں جن میں صہیونی ریاست کے جرائم کی پردہ پوشی کو سنگین جرم قرار دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ ‘بی ڈی ایس’ تحریک سنہ 2005ء میں قائم کی گئی تھی۔ اس میں فلسطین کی سول سوسائٹی نے اسرائیلی بائیکاٹ کا آغاز کیا۔ جلد ہی یہ تحریک بین الاقوامی تحریک کی صورت اختیار کرگئی۔

فلسطینی تجزیہ نگار عبدالستار قاسم کا کہنا ہے کہ امریکا اور اسرائیل’صد کی ڈیل’ کی سازش کو آگے بڑھانے کے لیے عالمی سطح پر حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی کی طرف سے’بی ڈی ایس’ تحریک کےخلاف مہم چلانا فلسطینیوں‌ کے حقوق اور مطالبات کے معاملے میں‌صہیونی ریاست کی مجرمانہ طرف داری کرنا ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگار احمد رفیق عوض کا کہنا ہے کہ جرمن پارلیمنٹ میں اسرائیلی بائیکاٹ کی تحریک کی مخالفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرمنی کس حد تک صہیونی لابی کے زیراثر آچکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جرمنی نے’بی ڈی ایس’ تحریک کی مخالفت کرکے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو آگے بڑھانے کاموقع فراہم کیا ہے۔بشکریہ مرکز اطلاعات فلسطین

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …