بدھ , 24 اپریل 2024

مکہ کی نشست اور سعودی عرب کی ایران کے خلاف ایک اور بڑی ناکامی

شفیق ناظم الغبرا نے لندن سے چھپنے والے اخبار القدس العربی میں لکھا ہے : بہت سے عربوں کے لئے یہ واضح ہو گیا ہے کہ ایران کے علاقے میں بڑھتے رسوخ اور عرب حکومتوں کی کمزوری نیز مشرق وسطی میں اسرائیل کے علاوہ کسی بھی مضبوط حکومت کی تشکیل نہ پانے کے امریکی عزائم کے تحت خلیج فارس کونسل کے اجلاسوں میں فلسطین اور صہیونیوں کے مسئلہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے ایران کو ٹارگٹ کیا گیا تھا اور کوشش کی گئی تھی کہ ایران کو سب کے مشترکہ دشمن کے طور پر پیش کیا لیکن یہی مسئلہ عرب حکومتوں کے درمیان اختلافات کی بنیاد بن گیا، باوجود اسکے کہ عربی ممالک کے زیادہ تر لوگ ایران کولیکر پائی جانے والی بعض مشکلات سے آشنا و باخبر ہیں لیکن ایران سے رابطہ کی کیفیت کے سلسلہ سے ان میں اختلاف پایا جاتا ہے، موجودہ دور میں امریکی سیاست کا ساتھ دینا جس میں ایران کے اوپر شدید ترین پابندیوں کی حمایت شامل ہے اور ان پابندیوں کے مفروضے کو عسکری یلغار مفروضے سے بدلنے تک کی بات ہو رہی ہے یہ وہ چیز ہے جسے ایران کے ساتھ تعلق کے مناسب مفروضے کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا ہے ، چنانچہ ایران کے ساتھ مذاکرات کی بات یہاں سے عیاں ہوتی ہے کہ حالیہ مسائل و مشکلات میں ضروری ہے کہ مذاکرات کا دروازہ کھلا رہے تاکہ کوئی درگھٹنا نہ گھٹے اور کوئی انہونی نہ ہو یہ اور بات ہے کہ خلیج فارس تعاون کونسل کی جانب سے کیئے گئے اعلانات میں مذاکرہ کے مفروضے کو سانس لینے تک کا دریجہ نصیب نہ ہو سکا اور کوئی ایسی چیز سامنے نہ آ سکی جس کے ذریعے ایران کے ساتھ گفت و شنید کا معاملہ اٹھایا جاتا اور آپسی مسائل کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی جاتی ۔

’’ قدس العربی ‘‘میں شائع ہونے والی اس تحریر میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ : خلیج فارس تعاون کونسل کے اختتامی اجلاس میں پڑھے گئے اختتامی بیان میں علاقے کے حقیقی مسائل کو پیش کرنے سے گریز کیا گیا، ایران اور دیگر عرب ممالک کے درمیان ایران کو لیکر بہت سے چیلنجز پائے جاتے ہیں جس سے انکار ممکن نہیں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ عرب ممالک اور خلیج تعاون کونسل کی مشکلات محض ایران میں سمٹ کر نہیں رہ جاتی ہیں ،اور بھی غم ہیں زمانے میں ۔۔۔

علاوہ از ایں اگر حالیہ اجلاس کو ایران کے خلاف ایک موثر اقدام کی تمہید کے طور پر دیکھا جائے تو بھی یہ اجلاس ایران کے خلاف دباؤ کا ذریعہ بننے میں ناکام رہا ،بالکل اسی طرح جس طرح عرب ممالک کے ترکی کے ساتھ کوئی متوازی تعلق نہیں اور یہ ایک سیاسی ناکامی ہے جبکہ وہ مسلسل ایران کے ساتھ ایک توازن بنائے رکھنے کی کوششیں کر رہا ہے، اسی طرح اختتامی اجلاس میں ایران کے خلاف دباؤ کی واضح حکمت عملی کا سامنے نہ آنا بھی اس نشست کی ایک ناکامی ہے اور یہ نشست بھی اپنی پیشرو سیاست کی بنا پر اسی طرح ناکام رہی جس طرح اس سے پہلے کی نشستیں ۔

اس اجلاس کے بعد ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم سوال کریں کہ کیا عراق ایران کے مقابل ایک ایک مانع کے طور پر کھڑا ہوا ؟ کیا عمان ، کویت اور قطر ایران کے ساتھ اسی سیاست کو اختیار کر سکتے ہیں جو سعودی عرب نے اپنے لئے طے کی ہوئی ہے ۔شک نہیں کہ ہر ملک کی ضرورتیں اور اور انکی جغرافیائی حیثیت ایک دوسرے سے مختلف ہے اور ایران کے خلاف ہر ایک کی اپنی مخصوص سیاست ہے لہذا سب کا ایک مشترکہ موقف پر آنا بہت مشکل ہے ۔

اسی بنا پر اس اجلاس میں بھی کوئی واضح موقف سامنے نہیں آسکا ، بلکہ خلیج فارس تعاون کونسل کے اس اجلاس میں اس وقت آپسی شگاف اور بھی گہرا ہوتا نظر آیا عراق کے صدر جمہوریہ برہم صالح نے اعلان کیا کہ عراق اجلاسی کے اختتامی بیان میں شریک نہیں ہوا ہے اور اس سے متفق نہیں ہے ، اوراختتامی بیان ایسی صورت میں سامنے آیا جبکہ کئی ایک عرب ممالک نے اس میں شریک ہونے کو مناسب نہ جانا ۔ ہم جب ایران کے خلاف پیش کی گئی تجویز کو دیکھتے ہیں تو یہ بات پتہ چلتی ہے کہ یہ تجویز بہت سے ممالک کی جانب سے اپنے ممالک میں رہنے والے باشندوں کے حقوق کی عدم رعایت ،دوسرے ممالک کے داخلی امور میں دخالت پر بھی صادق آ رہی ہے حتی اس سے بھی بڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ تجویز وہ ہے جس کے مندرجات صرف ایران کو ہی ملزم نہیں قرار دیتے بلکہ یہ ریاست ہائے متحدہ اور امریکہ کی علاقائی سیاست کو بھی شامل ہیں۔

ہم علاقے میں اس قدر مکدر اور مسموم فضا کا سامنا کر رہے ہیں جو ایک جوالہ مکھی کی طرح ہے اور ایسی صورت میں صرف مذاکرہ کے ذریعہ ہی خطے میں چین و سکون پلٹایا جا سکتا ہے ۔ گزشتہ دور میں عرب ممالک نے صدام کی حمایت کرتے ہوئے ایران کے خلاف جنگ میں ایک مشترکہ محاذ تیار کیا تھا اور ایک ایسی جنگ میں وہ صدام کے حامی تھے جو ۸ سال تک چلی لیکن انجام کار یہ واضح ہو گیا کہ یہ جنگ بنیادی طور پر غلط تھی ، کیا جہان عرب دوربارہ اپنی پرانی تاریخی غلطی کو دہرانے کے در پے ہے۔

یہاں پر یہ سوال قائم ہوتا ہے کہ اضطراری طور پر منعقد ہو نے والے حالیہ دو اجلاسوں کا ہدف کیا تھا ؟ کیا یہ ایران کے خلاف امریکہ کی جانب سے کئے جانے والے فوجی اقدام پر سر پوش رکھنے کی ایک کوشش تھی ؟ کیا ہم نے ابھی تک امریکہ کی جانب سے ایسے اقدامات سے سبق نہیں لیا ہے جہاں امریکہ کے سامنے کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا اور اپنے عزائم سے پلٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور اس کے پاس واپسی کے سوا کچھ اور آپشن نہیں رہ گیا تھا ، عراق امریکہ کی عسکری تاخت و تاز کا ایک ایسا ہی نمونہ ہے جہاں امریکہ کو بھاری شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔ یہاں پر ایک اور سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا فی الحال امریکہ ایران سے مقابلہ کو تیار ہے ؟ کیا ٹرمپ انتظامیہ اور امریکہ ایران سے مقابلہ کے درپے نہیں ، کیا یہ جنگ نہیں چاہتے ، لفظی جنگوں کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ ایران سے مفاہمت کے درپے ہے اور ایران کو مذاکرات کے ٹیبل پر لانے کے لئے عربوں اور خلیجی ممالک نیز انکی جانب سے منعقد ہونے والے اجلاسوں کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعہ ایران پر دباو ٔڈالاجا سکے ، ان سب باتوں کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ ایران کے ساتھ ایک نیامعاملہ طے کیا جا سکے ایسا معاملہ جسکے تحت ایران کے دور تک مار کرنے والے بالسٹک میزائل پر بھی مذاکرات کئے جا سکیں اور انہیں گفت و شنید کی فہرست میں لایا جا سکے۔

ہمیں یہ بات نہیں بھلانی چاہیے کہ امریکہ ایران کی مدد کے چلتے ہی داعش کے خلاف کھڑا ہو سکا جبکہ امریکہ کی جانب سے جنگی عزائم میں پیش پیش جان بولٹن کی شخصیت جسکا ساز جنگ آج بھی چھڑا ہوا ہے، وہی شخصیت ہے جس نے ۲۰۰۱ء میں عراق کو بیٹھے بٹھائے ایران کی آغوش میں سونپ دیا تھا ، خلیج فارس اور عربی ممالک کی حکومتوں کے ساتھ اسلحوں کی خرید و فروخت کی ڈیل کی جا سکے اور تیل کی عالمی منڈوں میں کھڑا ہو اجا سکے ۔بشکریہ ابنا نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …