ہفتہ , 20 اپریل 2024

امریکہ کا اگلا ہدف اور نیا ہتھیار!

(ڈاکٹر احمد سلیم)

افغانستان، عراق، لیبیا اور شام:۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ کا اگلا ہدف مخالف کیمپ میں کھڑاکوئی اسلامی ملک ہی ہوگا۔ لیکن اگر ہم مسٹر ٹرمپ کی گزشتہ دو تین برس کی پالیسیوں پر غور کریں تو نظر آتا ہے کہ انہوں نے اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے روایتی فوج کی بجائے ایک غیر روایتی اور نیا ہتھیار ایجاد کیا ہے اور وہ ہے ’’ معیشت اور ڈالر‘‘۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ مسٹر ٹرمپ ایک کاروباری شخصیت ہیں اور ایسے شخص کو عموماً یہ عادت ہوتی ہے کہ جو پسند آئے خرید لو۔ اگر کوئی شخص آپکی پسند کی شے بیچنے کے لیے تیار نہ ہو تو پیسے کے زور پر ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں کہ وہ چیز آپکو فروخت کرنے کے لیے مجبور ہو جائے۔ کسی بھی ’’ بزنس ٹائیکون ‘‘ کا پسندیدہ اور سب سے مہلک ہتھیار پیسہ ہی ہوتا ہے کیونکہ ہماری دنیا کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ چاہے دو بندوں کے تعلقات ہوں یا دو ممالک کے، پیسے کے زور پر ان پر کسی بھی انداز سے اثر ڈالا جا سکتا ہے۔ اور مسٹر ٹرمپ جیسے کاروباری شخص سے زیادہ اس حقیقت کا ادراک بھلا کسے ہو سکتا ہے؟ اسی لیے مسٹر ٹرمپ اپنی خارجہ پالیسی میں جہازوں اور ٹینکوں کی بجائے دنیا کے خلاف ’’ اضافہ شدہ ٹیرف‘‘ ، بلیک لسٹیں، معاشی تنہائی کی دھمکی اور معاشی پابندیوں کو کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں اور امریکہ کے سیاسی ، فوجی اور معاشی اہداف حاصل بھی کر رہے ہیں۔

سب سے پہلے مسٹر ٹرمپ کی الیکشن مہم کو دیکھیں تو اسکی بنیاد بھی اس کاروباری شخص نے معیشت اور پیسے پر ہی رکھی تھی۔ ایک جانب انہوں نے امریکہ کی معیشت کو بہتر کرنے اور امریکیوں کے لیے نئی نوکریوں کی بات کی تو ساتھ ہی انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا وہ نہ صرف امریکہ اور میکسیکو کے درمیان بارڈر بند کر دیں گے بلکہ اسکا خرچہ بھی میکسیکو سے ہی وصول کریں گے۔ تجزیہ نگار تمسخر اڑاتے تھے کہ بھلا میکسیکو یہ ادائیگیاں کیونکر کرے گا۔ مگر بعد میں دیکھا گیا کہ امریکہ نے نہ تو فوجی طاقت کے ساتھ میکسیکو کو یہ ادائیگی کرنے کے لیے مجبور کیا اور نہ میکسیکو بارڈر پر امریکی افواج کو کوئی کاروائی کرنی پڑی۔ اس کے برعکس انہوں نے میکسیکو کے ساتھ کاروبار میں ٹیرف بڑھا کر عملی طور پر پیسہ میکسیکو سے ہی وصول کیا۔ ایک اور مثال ترکی کی ہے۔ترکی کے صدرطیب اردگان نے 2016 کی ناکام بغاوت کی تحقیقات کے دوران ایک امریکی پاسٹر ’’ اینڈریو برنسن‘‘ کو بھی حراست میں لے لیا۔ جواب میں امریکہ کے صدر نے پہلے ترکی پر کچھ پابندیا ں لگائیں۔ کچھ دنوں بعد انہوں نے اعلان کیا کہ وہ ترکی سے سٹیل اور ایلمونیم کی برآمد پر ٹیرف بڑھا دیں گے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو ان دونوں دھاتوں کی امریکہ کو برآمد رک جاتی۔ مجبوراََ اکتوبر 2018 ء میں ترکی کو امریکی پاسٹر کو آزاد کرنا پڑا ۔ سب سے تازہ مثال چینی کمپنیوں کے خلاف امریکہ کے تازہ اقدامات ہیں۔ اس وقت چین بلاشبہ امریکہ کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ نظر آ رہا ہے اور امریکہ کے لیے اسکی وہی حیثیت ہے جو کبھی روس کی تھی۔ لیکن روس کے ساتھ سرد جنگ کے بر عکس امریکہ نے نہ تو چین کے خلاف کوئی میزائل نصب کیے ہیں اور نہ ہی کوئی بحری بیڑہ چین کی جانب روانہ کیا ہے اس کے بجائے ٹرمپ نے چین کی ایسی کمپنیوں پر وار کیا ہے جو چین کی معیشت میں اہم کردار اداکررہی ہیں۔ کچھ کمپنیوں پر پابندی عائد کی ہے تو کچھ مصنوعات کے ٹیرف بڑھا دیے ہیں۔ اس سب کے چین کی معیشت پر بلا شبہ بڑے اثرات ہوں گے لیکن چین شاید اس وقت دنیا میں واحد ملک ہے جس کی معیشت اس قسم کے ’’ امریکی حملے‘‘ کا جواب دینے کی متحمل ہو سکتی ہے اور چین بھی امریکہ پر اسی قسم کی تجارتی پابندیاں عائد کر رہا ہے جس قسم کی امریکہ کر رہا ہے۔

اگر خدانخواستہ امریکہ کا اگلا ہدف پاکستان ہوا تو ضروری نہیں ہے کہ پاکستان کے خلاف عراق یا افغانستان کی طرح فوجی طاقت استعمال کرنے کی کوشش کی جائے بلکہ امریکہ کی جانب سے حملہ مسٹر ٹرمپ کے نئے اور پسندیدہ ہتھیار سے بھی ہو سکتا ہے اور اس حملے کا جواب پاک فوج نہیں دے سکتی بلکہ اس کا جواب پاکستان کے پالیسی سازوں، سیاستدانوں اور عوام نے دینا ہے۔ امریکہ کے عزائم تو سامنے ہیں اور امریکی صدر پہلے دن سے پاکستا ن کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ امریکہ نے پاکستان کو اربوں ڈالر دیے ہیں جن کے بدلے میں پاکستان نے کافی کچھ نہیں کیا اور پاکستان کو مزید کچھ کرنا ہو گا۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امریکہ کی جنگ لڑتا رہے تاکہ امریکہ کا نقصان کم سے کم ہو اور اسے فتح نہیں تو فتح کا دعویٰ کرنے کا موقع ہی مل جائے۔ ساتھ ہی امریکی خواہش یہ بھی ہے کہ پاکستان بھارت کو افغانستان کے ساتھ تجارت کے لیے زمینی راستہ دے( اور اپنے پائوں پر کلہاڑی مار لے)۔ اگر اپنے اہداف کے حصول کے لیے امریکہ اپنے نئے پسندیدہ ہتھیار سے پاکستان پر حملہ آور ہوتا ہے تو کیا پاکستان کی حکومت اور عوام اس قسم کے کسی حملے سے نبٹنے کے لیے تیار ہیں یا کوئی منصوبہ بندی کیے بیٹھے ہیں؟

اسوقت فی کس GDP کے حساب سے دنیا کے ممالک میں ہمارا نمبر 148 ہے۔ مئی 2019 کی IMF کی رپوٹ کے مطابق آنے والے برس میں ہمارا Growth Rate جنوبی ایشیا میں سب سے کم یعنی 2.9% ہو گا۔ کوئی ہماری حکومت کو سمجھائے کہ یہ جنگ جیتنا بھی پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے اور اس جنگ کے لیے بھی ’’ جنگی بنیادوں‘‘ پر ہی اقدامات کرنے پڑیں گے۔ بھینسوں اور پرانی گاڑیوں کی فروخت اور پریس کانفرنسوں اور اور وزراء کے ٹوئیٹر پیغامات سے کام نہیں چلے گا۔ ٹوئیٹر اور پریس کانفرنسیں آج کے زمانے کی وہی بانسریاں ہیں جو روم میں بیٹھ کر ’’ نیرو‘‘ بجایا کرتا تھا۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …