ہفتہ , 20 اپریل 2024

‘آف شور’ ٹیکس بچانے والوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) حکومت نے آف شور ٹیکس بچانے والے نادہندگان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے انکم ٹیکس قوانین میں متعدد ترامیم کی تجویز کردی۔ تجویز کردہ ترامیم کے تحت آف شور اکاؤنٹس کے ذریعے ٹیکس بچانا قابل سزا جرم تصور کیا جائے گا اور جو اس میں مجرم پایا گیا تو اسے بھاری جرمانے یا 7 سال تک جیل کا سامنا کرنا پڑے گا۔یہ ترامیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی سفارشات کے مطابق ہیں اور اسے پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد فنانس ایکٹ 2019 کا حصہ بنایا جائے گا۔

ترامیم میں بدعنوانیوں اور ریئل اسٹیٹ لین دین میں ملوث افراد، حکام، ٹیکس بچانے والوں، مفرور، جرم میں مدد کرنے والوں کے لیے قانونی فریم ورک میں مختلف تبدیلیاں متعارف کروائی گئی ہیں۔حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا بل، کمشنرز کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے جو فلائٹ رسک تصور کیے جاتے یا وہ جرمانے سے بچنے کے لیے اپنے اثاثے تصرف کرتے ان کے مقامی اثاثے منجمد کردیں۔اس بل میں دیگر 3 دفعات 192 بی، 195 اے اور 195 بی بھی شامل کی گئی ہیں جو آف شور اثاثے چھپانے والوں اور ایسے افراد جو آف شور اکاؤنٹس یا کمپنیوں کے ذریعے اثاثے چھپانے کے لیے آلہ کار کے طور پر کام کرتے ہیں ان سے نمٹے گیں۔

ساتھ ہی حکومت نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ ایک لاکھ روپے سے زائد مالیت کے آف شور اثاثوں کو چھپانا قابل سزا جرم ہوگا اور اس پر 7 سال تک قید یا ٹیکس بچانے کی رقم کا 200 فیصد تک جرمانا یا پھر دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔

اسی طرح یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ ایسے افراد جنہوں نے 25 لاکھ روپے کے برابر آف شور ٹیکس بچایا ہے ان کے نام ملک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں نشر و شائع کیے جائیں گے، علاوہ ازیں مجرموں پر سیکشن 116 اے تحت غیر ملکی اثاثوں کی اسٹیٹ میں اثاثے ظاہر نہ کرنے پر 2 سال جیل یا کُل آف شور اثاثوں کی مالیت کا 2 فیصد تک جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ ایسے لوگ جو رہنمائی میں معاونت اور مدد کرنے یا مجرم کو مشورہ دینے، لین دین کا بندوبست کریں اور اس کا نتیجہ ٹیکس بچانے کی صورت میں نکلے تو انہیں بھی 7 سال تک جیل یا 50 لاکھ روپے جرمانے یا پھر دونوں سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ ان سہولت کاروں کے نام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی شائع و نشر کیے جائیں گے۔فنانس بل 2019 میں کمشنرز کو اس بات کا بھی اختیار ہوگا کہ وہ ان حدود میں کارروائی کرسکیں گے جہاں غیر ظاہر شدہ سونا، بیریئر سیکیورٹیز یا غیرملکی کرنسی کی موجودگی کی قابل عمل معلومات ہوں تاکہ انہیں ضبط کیا جاسکے۔

دوسری جانب حکومت نے اثاثے ظاہر کرنے کے ایکٹ 2019 کے تحت زیادہ سے زیادہ اثاثے ظاہر کرنے کو یقینی بنانے کے لیے اس ایکٹ کے تحت اثاثے ظاہر کرنے کے مقدمات میں سماعتوں کو بھی روک دیا ہے۔ساتھ ہی حکومت کی جانب سے ایک ایسی اسکیم بھی متعارف کروائی گئی ہے جہاں کاروباری آمدنی حاصل کرنے والا ہر شخص یہاں تک یہ ٹیکس کی حد سے نیچے رہنے والے کو بھی یہ اختیار ہوگا کہ وہ نیشنل ڈیٹابیس اور رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) ای سہولت سینٹرز کے ذریعے خود کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ساتھ رجسٹرڈ کرواسکے گا۔

واضح رہے کہ اس وقت صرف ٹیکس دہندگان کے لیے ہی ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ ہونا ضروری ہے جبکہ کاروباری آمدنی حاصل کرنے والے ایسے افراد جو ٹیکس ریٹرن کی حد سے نیچے ہیں ان کے لیے رجسٹر ہونا ضروری نہیں۔یہ اسکیم مستقبل میں نئے ٹیکس دہندگان کی شناخت کے لیے ڈیٹا بیس بنانے میں حکومت کو مدد دے گی۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان نے تحریک انصاف کے کسی بڑے سیاسی رہنما کے بجائے ایک وکیل کو نگراں چیئرمین کیوں نامزد کیا؟

(ثنا ڈار) ’میں عمران کا نمائندہ، نامزد اور جانشین کے طور پر اس وقت تک …