ہفتہ , 20 اپریل 2024

‘فریڈم انفارمیشن ایکٹ’ فلسطینی اتھارٹی کے ہاں داخل دفتر کیوں؟

سولہ سال پیشتر سنہ 2003ء میں فلسطین میں ‘فریڈم انفامیشن بل’ پر کام شروع ہوا اور سنہ 2014ء میں یہ بل منظور ہوگیا مگر اس کی منظوری کے باوجود ابھی تک یہ ایکٹ نافذ العمل نہیں ہوسکا بلکہ یہ بل وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر کی فائلوں میں دب کر گم ہوگیا ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ آیا اس ایکٹ کے عملی نفاذ میں کون رکاوٹ ہے۔

سنہ 20003ء میں فلسطینی مجلس قانون ساز نے انفارمیشن بل پر بحث شروع کی۔ اس کے بعد وزیراعظم سلام فیاض کی حکومت نے بھی اس پر غور کیا۔ سلام فیاض کی طرف سے منظوری کے بعد فلسطینی انسداد بدعنوانی کمیشن کے سربراہ رفیق النتشہ کو اس کی منظوری کے لیے بھیجا گیا۔ سنہ 2014ء میں بعض تحفظات کے باوجود اسے منظور کر لیا گیا۔

حال ہی میں‌ جب فلسطین میں انتظامی اور ادارتی فیصلوں میں قانون سے تجاوز کی لیکس کا طوفان اٹھا تو فریڈم انفارمیشن ایکٹ کی منظوری کی اہمیت ایک بار پھر واضح ہوگئی۔اس قانون کی منظوری سے قبل اسے بحث میں لانے کے لیے سول سوسائٹی اور کمیونٹی الائنس کی طرف سے بھی فلسطینی اتھارٹی پر دبائو ڈالا گیا مگر تمام کوششوں کے بعد یہ بل منظور ہو گیا مگر اس کا نفاذ نہیں‌ ہوسکا۔

ایکٹ کے نفاذ میں دانستہ تعطل
فلسطین میں کمیونٹی الائنس کے ڈائریکٹر مجدی ابو زید نے مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی حکام کو فریڈم انفارمیشن ایکٹ کے نفاذ کے حوالےسے بعض ان ہونے خدشات لاحق ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی کے عمال فریڈن انفارمیشن کی حقیقی تعبیر سے آگاہ نہیں اور وہ اس کے حقیقی فہم سے واقف نہیں۔

جہاں تک ریاستی سلامتی کے رازوں کا تعلق ہے کہ تو اس کے حوالے سے ایک عالمی مسلمہ اصول ہے کہ ایسی معلومات جن کا تعلق کسی بھی شکل میں قومی سلامتی کے ساتھ ہو انہیں فریڈم انفارمیشن ایکٹ کے تحت افشاء نہیں‌ کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ اہم اور مخصوص نوعیت کی معلومات بعض مخصوص ضابطوں اور شرائط کے ذریعے جاری کی جاسکتی ہیں اور عام شہریوں کو ان تک رسائی دی جا سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فلسطینی حکام کے ساتھ ہماری کئی نشستیں ہوئیں جن میں مذکورہ فریڈم انفارمیشن ایکٹ پر بات کی گئی مگر اس کے باوجود دانستہ طورپر اس کے نفاذ کی راہ روکی گئی۔شفافیت اور احتساب الائنس ‘امان’ کا کہنا ہے کہ فلسطین میں معاشرے کو خود مختار بنانے کے ساتھ ساتھ فیصلہ سازی میں عوام کی شراکت، انتظامی اور مالی امور میں احتساب اور شفافیت کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ اسی قانون کی مدد سے فلسطین میں گڈ گورننس کے لیے بھی فریڈم ایکٹ کے نفاذ کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔

جوہری تحفظات
فلسطینی قانون دان محمد دراغمہ نے مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فریڈم انفارمیشن ایکٹ کی منظوری کے بعد کئی سال گذر گئے ہیں۔ دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی تیزی کے ساتھ فریڈم انفارمیشن ایکٹ کے متضاد قوانین کی تیاری میں سرگرم ہے۔ ان میں سائبر جرائم ایکٹ جیسے قوانین شامل ہیں جن میں معلومات تک رسائی کو مزید زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فریڈم انفارمیشن ایکٹ کے نفاذ میں تعطل فلسطینی صحافیوں اور سماجی کارکنوں کےمطالبات کے خلاف ہے۔ پانچ سال سے تعطل کا شکار قانون میں‌ بھی کئی سقم موجود ہیں۔ شہریوں کو معلومات تک رسائی کی اجازت نہیں دی جاتی۔بشکریہ مرکز اطلاعات فلسطین

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …