بدھ , 24 اپریل 2024

تو پھر سعودی عرب پر انصار اللہ کا قبضہ ہوتا …

ایران کی بحریہ کے کمانڈر ایڈمیرل علی فدوی کا کہنا ہے کہ ہم یمن میں موجود نہیں ہیں اور اگر ہم یمن میں ہوتے تو ریاض پر انصار اللہ کا قبضہ ہوتا ۔گزشتہ چار برسوں سے زائد عرصے سے یمن میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وحشیانہ حملے اور جرائم ہیں ۔ ان دونوں حکومتوں اور ان کے اتحادیوں کے پاس جو کچھ بھی ہے، ہتھیاروں سے لے کر کرایہ کے ایجنٹ تک سبھی یمن کے مظلوم عوام کے خلاف استعمال کر رہے ہیں ۔

یہ بات صحیح ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہی یمن کے خلاف وسیع جنگ کا آغاز کرنے والے ہیں تاہم ان کو امریکا، صیہونی حکومت اور کچھ مغربی ممالک کی فوجی، اسٹراٹیجک، مالی اور انٹلیجنس شئیرنگ حمایت جاری ہے ۔

امریکا، صیہونی حکومت اور کچھ مغربی ممالک کی وسیع حمایت کے باوجود سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات یمن میں اپنے اس کسی ایک ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جس کے لئے اس نے اس غریب عرب ملک کے خلاف وسیع جنگ کا آغاز کیا تھا ۔سعودی عرب کے اتحاد نے یمن کا وسیع محاصرہ بھی کر رکھا ہے تاہم ان سب کے باوجود چند جوان ایسی مزاحمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس سے سعودی اتحاد کی نیندیں اڑ گئی ہیں ۔

ہاں، ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سعودی عرب کو امریکا نیز کچھ مغربی ممالک سے ہتھیار اور اسلحے تو خوب مل رہے ہیں لیکن جنگ یمن کو جیتنے میں یہ ہتھیار اس کی مدد نہیں کر رہے ہیں ۔ یہی نہیں یمن کی فوج اور رضاکار فورسز کی جانب سے جوابی حملے تیز ہوگئے ہیں ۔یمنی فوج نے حالیہ دنوں میں سعودی عرب پر متعدد ڈرون اور میزائل حملے کئے ہیں جبکہ ابو ظہبی ائیرپورٹ پر ڈرون حملے کا ویڈیو بھی جاری کر دیا ہے ۔

یمن کی طاقتور تحریک انصار اللہ کے ایک رہنما محمد البخیتی کا کہنا ہے کہ ہم ریاض اور ابوظہبی کے انٹرنیشنل ہوائی اڈوں کو بند کروانے کی توانائی رکھتے ہیں ۔ 27 جولائی 2018 کو ابو ظہبی کے انٹرنیشنل ہوائی اڈے کے اندر ڈرون حملے کے ویڈیو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے محمد البخیتی نے کہا کہ یہ ویڈیو ثابت کرتا ہے کہ امارات کے پاس سچ بولنے کی ہمت نہیں ہے ۔

پوری دنیا جانتی ہے کہ سعودی عرب، یمن میں پراکسی جنگ نہیں کر رہا ہے بلکہ وہ براہ راست اس جنگ میں شامل ہے۔ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ ایران نہ تو بالواسطہ اور نہ ہی بلا واسطہ جنگ یمن میں شامل ہے بلکہ یہ یمنی عوام ہے جو گزشتہ چار سال سے زائد عرصے سے ظالموں سے بر سر پیکار ہے ۔

جیسا کہ ایران کی بحریہ کے سینئر کمانڈر ایڈمیرل علی فدوی نے اسی حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے اور سعودی عرب اور امریکا کے چہرے سے جھوٹ کی نقاب اتار لی ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک اور صیہونی حکومت ایران پر یمن میں پراکسی وار میں شامل ہونے کا الزام عائد کرتے رہتے ہیں ۔ ان لوگوں کو پتہ ہے کہ اگر ایران چاہتا تو جنگ کا نقشہ ہی بدل چکا ہوتا ۔ یہاں پر ایک بار پھر ایرانی بحریہ کے کمانڈر کا یہ قول دہرانا ضروری ہے کہ ہم یمن میں نہیں ہیں اور اگر ہوتے تو ریاض پر انصار اللہ کا کنٹرول ہوتا ۔بشکریہ سحر نیوز

ڈیل آف سینچری، مخالفتوں کے باوجود نافذ کرنے کی ضد
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ڈیل آف سینچری کو نافذ کرنے کے لئے سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان کو اصل رکن کے طور پر مد نظر رکھا گیا تھا تاہم سینئر صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل اور جنگ یمن کی وجہ سے بن سلمان پوری دنیا میں بری طرح بدنام ہوگئے ہیں ۔

ارجنٹائن میں جی-20 کے سربراہی اجلاس کے موقع پر یہ مسئلہ زیر بحث رہا۔ فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے بتایا کہ انہوں نے واضح الفاظ میں بن سلمان سے کہا ہے کہ پورا یورپ چاہتا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق سارے ثبوت برملا ہوں اور اس کے لئے عالمی تحقیقات کرائی جائے جس پر اعتماد کیا جا سکے ۔

دوسری جانب امریکا کی خفیہ ایجنسی کی خفیہ رپورٹوں میں یہ کہا گیا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل میں بن سلمان کے ملوث ہونے کے پختہ اشارے موجود ہیں ۔

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی کہا ہے ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق ساری اطلاعات منظر عام پر آنی چاہئے ۔

ان حالات کے مد نظر بن سلمان کے لئے اپنا عہدہ باقی رکھ پانا سخت ہو گیا ہے۔ اس لئے امریکا کا ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیل کی نتن یاہو حکومت دونوں کو یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ ڈیل آف سینچری کا اگر اعلان کر بھی دیا جائے تو اسے نافذ کر پانا غیر ممکن ہے۔

بحرین کی میزبانی میں اقتصادی اجلاس، پچیس اور چھبیس جون کو ہونے والا ہے جبکہ اس سے قبل مکہ میں خلیج فارس تعاون اجلاس اور عرب لیگ اجلاس بھی منعقد ہوئے جس میں مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کیا گیا جس سے فلسطینیوں کے ساتھ آل سعود اور آل خلیفہ حکومتوں کی آشکارہ خیانت کی غمازی ہوتی ہے-

اسی سلسلے میں لبنان کے دارالحکومت بیروت کی سنٹ ژورف یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے ڈائرکٹر ” کریم امیل بیتار ” امریکی منصوبے کی فلسطینیوں کی جانب سے ٹھوس مخالفت کے بارے میں کہتے ہیں درحقیقت سنچری ڈیل منصوبے کی حقیقی ماہیت یہ ہے کہ اسرائیل اور خلیج فارس کے ممالک قریبی تعلقات برقرار کرنے کے ذریعے فلسطین کے مظلوم عوام کے حقوق پامال کرنے کے درپے ہیںاس سال یوم قدس کی ریلیاں دنیا کے سو سے زائد ملکوں میں نکالی گئیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینی عوام کے حقوق اور امنگوں کا کسی بھی منصوبے سے سودا نہیں کیا جا سکتا اور مزاحمت و استقامت ، امریکہ، عرب اور اسرائیل کے سنچری ڈیل منصوبے پر عملدر آمد میں رکاوٹ بنے گی-

کولمبیا کے سیاسی امور کے ماہر کارلوس سانتا ماریا کا خیال ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو زندہ رکھنے کے لئے یوم قدس کی ریلیوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور فلسطینی عوام کے ساتھ اتحاد و یکجہتی کا دائمی اور جاوداں اظہار ہونا چاہئے-

ایسے حالات میں سنچری ڈیل منصوبے پر عملدرآمد کے لئے سعودی اور آل خلیفہ حکومتوں کی کوششیں، محض ایسے دلدل کی سمت قدم بڑھانا ہے کہ جس میں سازش رچانے والی یہ حکومتیں دھنس کر رہ جائیں گی اور فلسطین اور قدس کا مسئلہ بدستور مزاحمتی افکار کی حمایت سے زندہ و پائندہ رہے گا- جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے سنچری ڈیل کی مخالفت کرنے والے اسلامی ممالک اور فلسطینی تنظیموں کا شکریہ ادا کرتے ہوئےفرمایا: صدی معاملہ کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہوگا اور نہ ہی سرانجام کو پہنچے گا۔ بشکریہ سحر نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …