جمعہ , 19 اپریل 2024

یمن جنگ کے بدلتے پینترے

(تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی)

یمن کی جنگ پانچویں سال میں داخل ہو چکی ہے اور دونوں محاذوں سے موصول ہونے والی خبریں اس سال میں اہم تبدیلیوں کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ یمن جنگ کا فطری تقاضا تو یہ تھا کہ وسیع پیمانے پر وسائل خاص طور پر جدید فوجی سازوسامان سے لیس مغربی عربی محاذ اور محروم یمنی عوام اور فورسز جن کا سوائے ایران کے دنیا میں کوئی حامی نہیں ہے کے درمیان ٹکراو میں پانچویں سال کی نوبت ہی نہ آتی۔ مزید برآں، گذشتہ 51 مہینوں سے آگ کی بارش تلے جلنے والے محاذ کی جانب سے جنگ سے اکتا جانے کی صدائیں سنائی دیتیں۔ لیکن چونکہ دو محاذوں کے درمیان ٹکراو میں مادی وسائل سے زیادہ الہی مدد اور نصرت کا کردار اہم ہوتا ہے لہذا ہم ایسے محاذ کی جانب سے وحشت، اکتاہٹ، بے بسی اور شکست کی علامات کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو عالمی سطح پر حمایت اور پشت پناہی کے لحاظ سے چوٹی پر کھڑا ہے۔ مکہ میں 30 اور 31 مئی کو تین مسلسل اجلاس منعقد ہونا اور سعودی اور اماراتی حکام کے بیانات میں "حوثی باغیوں” کی اصطلاح (یہ اصطلاح انصاراللہ اور یمنی عوام کی تحقیر کیلئے بروئے کار لائی جاتی ہے) کی فراوانی سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ محاذ گذشتہ 50 ماہ کے دوران یمن کے محرومین کے مقابلے میں کس قدر مشکلات اور سختیوں کا شکار ہوا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تین اسلامی، عربی اور خلیجی اجلاسوں میں شرکت کرنے والے افراد اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ اگر وہ افراد باغی اور انتہائی قلیل تعداد میں ہیں جن کے خاتمے کیلئے سعودی عرب نے ایک شدید جنگ کا آغاز کر رکھا ہے اور پیسے کے ذریعے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے "جارحیت کی قرارداد” بھی منظور کروانے میں کامیاب ہو چکا ہے اور ہزاروں سوڈانی اور غیر سوڈانی کرائے کے قاتل بھی خرید کر روانہ جنگ کر چکا ہے اور مغرب کی تمام تر فوجی، انٹیلی جنس اور اسلحہ کی صلاحیتوں سے بھی فائدہ اٹھا چکا ہے تو مغربی عربی محاذ کیا کر رہا ہے؟ ان اجلاسوں میں جب انہوں نے سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی زبان سے یہ سنا کہ انصاراللہ یمن اب تک جیزان سے نجران اور ریاض سے ابوظہبی تک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر 200 میزائل مار چکی ہے اور ان کے 70 جنگی طیارے گرا چکی ہے اور جنگ کے پانچ سال گزرنے کے بعد سعودی عرب کے صوبوں عسیر اور جازان کے بڑے حصے پر قابض بھی ہے تو ضرور ان کے ذہن میں یہ بات آئی ہو گی کہ مظلوم یمنی ایک متحدہ محاذ پر سرگرم عمل ہیں اور وہ مغربی عربی اتحاد پر غلبہ پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

البتہ مکہ کے ان تین اجلاسوں میں سعودی حکام نے انصاراللہ یمن کے طاقتور اور اپنے کمزور ہونے پر تاکید کی ہے اور اسلامی، عرب اور خلیجی سربراہان مملکت کے سامنے اپنا ضعف اور عاجزی عیاں کیا ہے تاکہ اس طرح ان کے اندر اپنے لئے رحم کا جذبہ پیدا کر سکیں۔ یہ وہی چیز ہے جسے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنی حالیہ تقریر میں "استغاثہ” سے تعبیر کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عرب لیک کے اجلاس کے اختتام پر جب عراقی نمائندے نے یمن اور خطے سے متعلق سعودی پالیسیوں پر تنقید کی تو اجلاس میں شریک ممالک نے اس کے خلاف کوئی اعتراض نہ کیا اور عرب ممالک کے نمائندوں کی خاموشی ایک طرح سے عراقی نمائندے کی حمایت ظاہر کر رہی تھی۔ اس اجلاس میں شریک عراقی نمائندوں نے عراق واپس آنے کے بعد واضح طور پر اعلان کیا کہ باقی عرب ممالک کا موقف بھی ہم سے ملتا جلتا تھا اور وہ اپنے رویے کے ذریعے اسے ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ سعودی اور اماراتی حکام کی اسی کمزور پوزیشن کے باعث جب فجیرہ بندرگاہ میں سات آئل ٹینکرز پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تو ابوظہبی کوئی واضح موقف اختیار نہ کر پایا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متحدہ عرب امارات کے نمائندے کی جانب سے فجیرہ واقعے کی تحقیق کیلئے پیش کئے جانے والے خط میں کسی ملک یا گروہ کا نام نہیں لیا گیا۔

سلامتی کونسل میں اماراتی نمائندے کے اس خط میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ "عام طور پر اس قسم کے اقدامات حکومتی سطح پر انجام پاتے ہیں”۔ یمن کی انقلاب کونسل کے سربراہ محمد علی الحوثی نے گذشتہ ہفتے اپنے ٹویئٹر پیغام میں لکھا: "وہ جو یہ تک نہیں جانتے کہ کون ان پر حملہ ور ہوا ہے یقیناً اپنی فوجی مہم جوئی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہی کے تمام پہلووں سے لاعلم ہیں۔” لیکن مکہ کے حالیہ تین اجلاسوں اور سعودی ولیعہد محمد بن سلمان اور اماراتی ولیعہد بن زاید کی ندائے استغاثہ کے بعد ان کے متحدہ محاذ کی صورتحال مزید ابتر ہو گئی ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے گریفتھس پر الزام تراشی اور اس پر یمنیوں کی جانبداری کے جھوٹے الزام سے بھی ان کی کمزور پوزیشن عیاں ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کی جانب سے یمن کے مستعفی صدر منصور ہادی کے وزیر خارجہ خالد الیمانی کو استعفی دینے پر مجبور کرنا بھی اسی حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے جبکہ خالد الیمانی نے اسٹاک ہوم مذاکرات میں انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ سعودی اور اماراتی حکام نے گریفتھس پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ اس نے اسٹاک ہوم مذاکرات میں سعودی حکومت اور انصاراللہ یمن کو مساوی حیثیت دے کر ان سے زیادتی کی ہے۔

دوسری طرف سے مکہ اجلاسوں سے اب تک کی مدت میں انصاراللہ یمن کی جانب سے سعودی عرب کی حساس تنصیبات پر حملوں میں تیزی اور سعودی عرب کے اندر تک پیشقدمی جنگ میں سعودی عرب کی ابتر صورتحال کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے۔ حال ہی میں انصاراللہ یمن نے ایک کروز میزائل کے ذریعے سعودی عرب کے ابہا بین الاقوامی ایئرپورٹ کو نشانہ بنایا ہے۔ اس حملے کے باعث عسیر میں واقع اس ایئرپورٹ کی سرگرمیاں معطل ہو گئی ہیں جبکہ یہ ایئرپورٹ سعودی عرب کے جنوب کا مرکزی ہوائی اڈہ تصور کیا جاتا ہے۔ گذشتہ برس اس ایئرپورٹ سے 5.4 ملین مسافر نے سفر کیا تھا اور یہ ملک کا چوتھا یا پانچواں بڑا ایئرپورٹ جانا جاتا ہے۔ اسی طرح ابہا کا یہ ہوائی اڈہ خمیس مشیط میں واقع فوجی ہوائی اڈے کو سپورٹ فراہم کر رہا تھا جو یمن کی سرحد سے صرف 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس ایئرپورٹ سے ان سعودی جنگی طیاروں کو ایندھن اور فوجی سازوسامان مہیا کیا جاتا ہے جو یمن کے عام شہریوں کو ہوائی حملوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ یمنیوں نے اس ایئرپورٹ کو چوتھی بار نشانہ بنایا ہے۔ اس سے پہلی یمنی فورسز نے بغیر پائلٹ ڈرون طیاروں کے ذریعے ابہا ایئرپورٹ پر حملہ کیا تھا لیکن اس بار کروز میزائل کا استعمال کیا ہے۔

اسی ہفتے بدھ تک یمنی اسنائپرز نے دارالحکومت صنعا کے شمال میں واقع صوبے جوف میں 6 سعودی فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔ ہفتے کے دن یمنی فورسز نے صوبہ عسیر میں سعودی فورسز کو مکمل طور پر گھیرے میں لے کر سینکڑوں فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اسی طرح علب کی جانب جانے والے سعودی فوجیوں کو توپخانے سے نشانہ بنایا گیا۔ یمن کے اسنائپرز نے منگل کے دن 8 سعودی فوجیوں کو علب کے علاقے میں ہلاک کر دیا جبکہ جازان کے علاقے میں بھی 15 سعودی فوجی ہلاک ہوئے۔ اتوار کے دن یمن آرمی کے اسنائپرز نے جنوبی صوبے ضالع میں واقع الساقیہ کے علاقے میں 6 سعودی فوجیوں کو ہلاک کر دیا جبکہ اس صوبے میں پیشقدمی بھی کی۔ اس ہفتے انصاراللہ یمن نے سعودی عرب کے صوبے نجران میں حملہ کر کے 200 سعودی فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے اور تقریباً 10 کلومیٹر تک پیشقدمی بھی کی ہے۔ مزید برآں، گذشتہ دو ہفتوں کے دوران یمنی اسنائپرز نے 70 سعودی فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔ گذشتہ ہفتے منگل کی رات صوبہ عسیر کے علاقے ابواب الحدید پر یمنی فورسز نے 6 زلزال میزائل مارے۔ یمن آرمی اور انصاراللہ رضاکار فورسز کی جانب سے سعودی عرب کے خلاف بڑھتی ہوئی کاروائیاں جنگ کے پانچویں سال یمنیوں کے حق میں جنگ کا پلڑا بھاری ہونے کو ظاہر کرتی ہیں۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ یمنیوں نے مکمل طور پر جائز اور قانونی مطالبات منوانے کیلئے اپنی کاروائیوں میں حالیہ تیزی لائی ہے۔ ان کا یہ مطالبہ یمن کے ایئرپورٹس کا محاصرہ ختم کرنا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس تصور کے ساتھ کہ یمن کا ہوائی محاصرہ ان کے مقابلے میں یمنی فورسز کو کمزور کر دے گا اس ملک کے ایئرپورٹس کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ یمنی عوام سعودی حکمرانوں کو صرف ایک پیغام بھیج رہے ہیں اور وہ یہ کہ اگر آپ ہمارے ایئرپورٹس کی سرگرمیاں بند کریں گے تو ہم بھی آپ کے ایئرپورٹس کی سرگرمیاں روک دیں گے۔ یقیناً خمیس مشیط کے علاقے میں واقع سعودی عرب کے فوجی ہوائی اڈے ملک خالد اور ابہا کے سویلین ہوائی اڈے پر یمنیوں کے حملے ایک وارننگ ہیں۔ جیسا کہ چند دن پہلے انصاراللہ یمن کے ایک اعلی سطحی عہدیدار علی الفحوم نے المیادین سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے ایئرپورٹس کے خلاف ظالمانہ محاصرہ جاری رہا تو ہم بھی سعودی عرب کے فوجی اور سویلین ہوائی اڈوں پر حملوں میں اضافہ کر دیں گے۔ یمن آرمی کے ترجمان یحیی سریع نے بھی ملتا جلتا موقف اختیار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے خلاف کاروائیوں میں تیزی آ رہی ہے اور ہم کم از کم 300 اہم نکات کو نشانہ بنائیں گے۔

درحقیقت یہ اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی جیسے اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جارح قوتوں پر دباو ڈال کر یمن کے خلاف جاری ظالمانہ محاصرے کو ختم کروائیں۔ اس وقت یمنی عوام اور فورسز نے اپنی یہ مشکل خود حل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور بہت جلد ان کی یہ مشکل حل ہو جائے گی کیونکہ یمن کے خلاف محاصرہ جاری رکھنے کیلئے سعودی حکمرانوں کو بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا جو ان کیلئے ناقابل برداشت ہو گا۔ اگر گذشتہ چند ہفتوں کے دوران انصاراللہ یمن کی فوجی کاروائیوں اور بحیرہ احمر کے ساتھ ساتھ ان کی پیشقدمی کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ وہ ایسے علاقوں کی جانب بڑھ رہے ہیں جہاں سے سعودی عرب اپنی تیل کی تجارت کرتا ہے۔ یمنیوں نے سعودی عرب کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔ لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی حکمران اپنی تیل کی تجارت خطرے میں نہیں پڑنے دیں گے اور یمنیوں کے مطالبات ماننے پر مجبور ہو جائیں گے۔ دوسری طرف یورپ بھی بحیرہ احمر میں تیل کی تجارت اور آئل ٹینکرز کی آمدورفت خطرے میں پڑ جانے سے شدید خوفزدہ ہے۔ اسی وجہ سے یورپی ممالک یمن جنگ مزید جاری رہنے کے مخالف ہیں۔ فرانسیسی، برطانوی اور جرمن حکام نے سعودی حکمرانوں کو لعن طعن شروع کر دی ہے۔ یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ یمن جنگ جارح قوتوں کے نقصان میں آگے بڑھ رہی ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …