منگل , 23 اپریل 2024

صدارتی الیکشن میں دوبارہ کامیابی کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کی تگ و دو

(تحریر: ہادی محمدی)

گذشتہ چند ہفتے میں پیش آنے والے واقعات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ صدارتی انتخابات میں دوبارہ کامیابی کیلئے ایران سے مذاکرات کے شدید محتاج ہیں۔ یہ ضرورت اس قدر شدید ہے کہ انہوں نے ایران سے بغیر کسی پیشگی شرط کے مذاکرے کی پیشکش بھی کر دی ہے۔ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی یہ پیشکش بھی فریبکاری پر مبنی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے جاپانی وزیراعظم کو ثالثی کا کردار دے کر ایران بھیجا۔ جاپان کے وزیراعظم شینزو آبے کا دورہ ایران چالیس سال بعد جاپان کے وزیراعظم کا پہلا دورہ تھا۔ اس مدت میں اگرچہ ایران اور جاپان کے تعلقات معمولی سطح کے رہے لیکن امریکی پالیسیوں سے شدید متاثر ہونے کے ناطے بڑی سطح پر جاپانی وفد ایران نہیں آیا۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ نے جاپانی وزیراعظم کو اس امید کے ساتھ ایران بھیجا تھا کہ شاید نومبر سے پہلے پہلے ان کی جانب سے جنگ کی دھمکیوں سے مرعوب ہو کر ایران مذاکرات کی میز پر واپس آنے کا فیصلہ اختیار کر ہی لے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو یقین ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کے کسی بھی ایشو حتی یورپ، روس اور چین کے ساتھ اقتصادی ایشوز میں کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کر پائیں گے لہذا اپنے یورپی اتحادیوں جیسے برطانیہ، جرمنی اور فرانس نیز علاقائی اتحادیوں جیسے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مدد سے صدارتی دوڑ میں کامیاب ہونے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ جرمنی اگرچہ ایران سے تجارتی تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا لیکن اس کے باوجود امریکی پالیسیوں کی پیروی کے نتیجے میں اس کا وزیر خارجہ تہران کے دورے سے خالی ہاتھ واپس لوٹ چکا ہے۔ اسی طرح جاپان کے وزیراعظم شینزو آبے اپنے تہران دورے کے دوران اعلی سطح کا پروٹوکول اور احترام پانے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کی وکالت کرنے پر ایرانی حکام خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے سخت جواب سننے پر مجبور ہو گئے۔ یہ تحقیر اس قدر شدید تھی کہ مغربی میڈیا نے آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے جاپانی وزیراعظم کی ملاقات پر مبنی خبر سینسر ہی کر ڈالی۔

جرمنی کے وزیر خارجہ ماس اور جاپانی وزیراعظم آبے کی مشترکہ بات جنگ کے اس سائے پر مشتمل تھی جسے سامنے رکھتے ہوئے ایران سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنے کا تقاضہ کیا گیا تھا۔ لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے خلاف جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور صرف جنگ کے سائے سے ایران کو ڈرا دھمکا کر مطلوبہ سیاسی اہداف حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ وہ صرف اس صورت میں تہران کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کر سکتے ہیں جب ایران کی خام تیل کی برآمدات کو زیرو لیول پر لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اگر ایران ان کے اس اقدام کے نتیجے میں کوئی شدید ردعمل ظاہر کرتا ہے تو ایسی صورت میں ان کے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو سکتے لہذا جنگ کی دھمکیاں صرف ایران کو ممکنہ شدید ردعمل سے روکنے کیلئے دی جا رہی ہیں۔

امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور ان کی پٹھو عرب حکومتوں نے مشترکہ منصوبے کے تحت جاپانی وزیراعظم کے ناکام دورہ ایران کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی اس عظیم شکست پر پردہ ڈالنے کیلئے بحیرہ اومان میں تیل بردار کشتیوں کو نشانہ بنایا اور فوراً اس کا الزام ایران پر عائد کر دیا گیا۔ دوسری طرف جرمنی کے وزیر خارجہ ماس اور جاپانی وزیراعظم آبے کے تہران دوروں کے نتائج ایران کے حق میں اس قدر اہم اور وسیع تھے کہ ایران کو کسی اور اقدام کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بحیرہ اومان میں سعودی اور اماراتی تیل بردار جہازوں کے خلاف تخریب کاری کے واقعات سے متعلق حقائق اس قدر واضح ہیں کہ انتہائی معمولی سطح کا سیاسی شعور رکھنے والا شخص پس پردہ اسباب کو اچھی طرح بھانپ سکتا ہے۔ ان واقعات کے فوراً بعد اور بغیر کسی تحقیق کے امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے اس کا الزام ایران پر عائد کرتے ہوئے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کا مطالبہ کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے ملکی اور بین الاقوامی مشیر ایران کے خلاف بھونڈی سازشیں کرنے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں جبکہ ان سازشوں کا نتیجہ ان کی ناکامی اور رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …