جمعرات , 25 اپریل 2024

بجٹ کیا ہوتا ہے؟

(زبیر رحمٰن) 

بجٹ سال بھرکے لیے ملک کے انتظامات اور عوام کے فلاح وبہبود پر خرچ کرنے کے تقسیم کارکوکہتے ہیں۔ حقیقتاً عوام کے نقطہ نگاہ سے بجٹ یہ ہوتا ہے کہ ’’ زرعی، صنعتی ، آبی اور جنگلات کی پیداوارکا سال بھرکا تخمینہ لگا کر پیداوارکومساوی طور پر عوام میں تقسیم کرنا ہے‘‘ جب کہ سرمایہ دارانہ نظام میں عالمی برادری (یو این او ، نیٹو ،آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک) کے نقطہ نظر سے بجٹ یہ ہوتا ہے کہ ملک کی پیداوارکو آئی ایم ایف کے احکامات کے ذریعے تقسیم کیا جانا ہے، جس میں ملٹی نیشنل کمپنیوں ، ٹرانس نیشنل کمپنیوں ، نیٹو اورڈبلیو ٹی او،کی لوٹ میں مدد گار اور نوے فیصد عوام کو نیم فاقہ کشی کی جانب دھکیلا جاسکے۔

انھی فارمولے کے تحت ہمارے ہاں بھی بجٹ پیش کیا جا تا آرہا ہے۔ خسارے کا بجٹ ہر سرمایہ دار ملک میں پیش کیا جاتا ہے،اس لیے کہ عوام پر ٹیکس کا بوجھ لاد کر اور سرمایہ داری کو چھوٹ دے کر عوام کا خون نچوڑا جائے۔

20۔ 2019ء کا بجٹ 70 کھرب، 36ارب تیس کروڑ رو پے کا پیش کیا گیا ہے جس میں 3151ارب روپے کا خسارہ ہے، جب کہ عوام پر ٹیکس لگاکر 5555 ارب روپے کے ہدف کو پورا کرنا ہے۔ دفا عی بجٹ 1150ارب روپے ہے جب کہ تعلیم پر29ارب4کروڑ اور قومی صحت منصوبوں کے لیے13ارب 37کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یعنی ان دونوں کا بجٹ ملا کر 42ارب 41کروڑ بنتا ہے۔

ذوالفقارعلی بھٹوکی پہلی حکومت میں جب وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشرحسن تھے تو تعلیم اور صحت کا بجٹ کل بجٹ کا 4.3 فیصد تھا اوردفاعی بجٹ کم تھا، جب کہ انھیں دنوں بنگلہ دیش سے ایک لاکھ پاکستانی فوج جوکہ انڈیا کی قید میں تھی سے رہا کروانے کے عمل کے بعد دفاعی بجٹ کا حجم اور بھی کم ہوگیا تھا، پھر اس اقتصادی کسمپرسی میں ہمیں دفاعی بجٹ کوکم ازکم پچاس فیصد کم کرنا تھا اور وہ رقم صحت ، تعلیم ، بیروزگاری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف استعمال کرنا تھا۔ جہاں تک آئی ایم ایف کے احکامات اور مرضی پر بنائے ہوئے بجٹ کی بات ہے تو اس پر میں گزشتہ مضمون میں تفصیلاً لکھ چکا ہوں اس لیے اس پر مزید تبصرہ بیکار ہے۔

اس بجٹ میں درآمدات یعنی مہنگی گاڑی،کاسمیٹک ، سامان تعیشات پرکوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے اور ملک کے اندر جاگیرداروں ، سرمایہ داروں، نوکر شاہی، مینیجرز، ڈائریکٹرز، سیکریٹرز، جنرلز اور علماء سو پر بھی کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے ، جب کہ باالواسطہ ٹیکس کی بھرمارکردی گئی ہے ۔ہرچندکہ اس سے قبل یہ حکومت اقتدار میں آ نے کے بعد تین بار منی بجٹ پیش کرچکی ہے ۔ ہر بار اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضا فہ ہی ہوا ہے۔ سبزیاں سو روپے کلو پہلے سے بک رہی ہیں اور اب چینی،گھی، تیل،گوشت اور پولٹری کی قیمتوں میں پھر ایک بار اضافہ کردیا گیا ہے۔ دوسری جا نب کسان سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود 80 رو پے فی من گنا بیچنے پر مجبور تھے۔ چینی کے مل مالکان کو سرکاری قیمت پرگنا خریدنے پر پابندکیا گیا اور نہ ان پرکوئی ٹیکس لگایا گیا، اس لیے کہ بیشتر چینی کے مل مالکان پی پی پی، تحریک انصاف ، مسلم لیگ ن اور قاف کے ہیں اورکچھ ملیں فوجیوں کی ہیں ۔

بجلی اورگیس جن کی ہر دو تین ماہ کے بعد پہلے سے ہی قیمت بڑھا دی جا تی ہے اوراب پھر یکم جولائی سے بجلی اورگیس کی قیمتوں میں تقریباً 25 فیصد کا اضافہ کرنے کا اندیشہ ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ بجلی کے بل میں تقریبا 8 اقسام کے ٹیکسز مدغم ہیں جو پہلے بل پر لکھے ہوئے ہوتے تھے مگر اب اس لکھائی کو بھی مٹا دیا گیا ہے۔اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔ مہنگائی جس نسبت سے بڑھی ہے،اس لحاظ سے کم ازکم تنخواہ17500روپے اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے ۔اس مہنگا ئی میں 50000 روپے کم ازکم تنخواہ میں بھی گھر چلانا مشکل ہے۔ایک اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ فوجی پینشنرزکے لیے250 ارب روپے جب کہ سول پینشنرز کے لیے صرف80ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

صورتحال یہ ہے کہ فوجی پینشنرز محدود ہیں اور سول پینشنرزکی بہت بڑی تعداد ہے۔ اس بجٹ کو عوام دوست بنایا جاسکتا تھا بشرطیکہ زرعی زمین کے بڑے مالکان ، درآمداتی اشیاء پر بھاری ٹیکس لگایا جاتا۔ دال ،آٹا ، چاول ، تیل، دودھ ،گوشت، چائے، سبزی ، پھلوں، تابوں اور تعلیمی اداروں کی فیسوں کی نرخوں میں کمی کی جاتی، پینے کا پانی سب کو مفت مہیا کیا جاتا ، مگر اس میں عوام کی بھلائی ہو جاتی اور سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور آئی ایم ایف کو نقصان ہوتا، پھرکیونکر ایسا کیا جاتا ، اگر ہم برطانوی راج میں برطانوی تجارت پر ہی عمل کرتے تو ہمارے ملک میں قرضوں کا بوجھ ہوتا اور نہ سود ادا کرنا ہوتا۔ ہندوستان میں ململ ( چھینٹ) کا کپڑا بہت مشہور تھا، اس کی برطانیہ میں بہت مانگ تھی ۔ پھر حکومت برطانیہ نے اس کی درآمدات پر سو فیصد ٹیکس لگا دیا ، مزید طلب بڑھی تو دوسو فیصد ٹیکس لگا دیا، مزید طلب بڑھی تو تین اور پھر پانچ سو فیصد ٹیکس لگا دیا ۔ مزید بڑھنے پر ململ کے کپڑے کی درآمد پر ہی پا بندی لگادی،اگریہی کام ہم اپنے ملک میں کرلیں تو خاصی پریشانیاں دور ہوسکتی ہیں۔

ہم کسی گھرکے بجٹ سے ملک کے بجٹ کا موازانہ کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک مزدورکی تنخواہ 15000روپے ہے ،گھر چلانے کے لیے اسے ان ہی پیسوں میں گزارہ کرنا ہوگا، وہ چار سو روپے کلوکا انار نہیں خرید سکتا، 170رو پے والا چاول نہیں خرید سکتا یا 200 روپے کی شربت کی بوتل نہیں خرید سکتا ہے۔ جب وہ 40 روپے کی ایک پاؤ مسورکی دال خریدتا ہے تو پھر اپنی سیکیورٹی کے لیے ہزاروں روپے کا اسلحہ کیسے خرید سکتا ہے۔اپنے سیکیورٹی کے لیے ڈیفنس،کلفٹن کے لوگ اسلحہ تو خریدسکتے ہیں مگر مچھرکالونی،گیدڑکالونی ، بھگوان پورہ، اورنگی ٹاؤن یا چیچہ وطنی وتھرکا کسان کیونکر اپنی سیکیورٹی کے لیے اسلحہ خرید سکتا ہے۔

اسی صورتحال کو اگر ملک سے جوڑکردیکھیں تو پاک وہند میں کروڑوں انسان غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، دنیا کی کل غربت کا 40 فیصد اسی خطے میں پلتی ہے ، جب کہ انھیں ممالک نے ایٹم بم بھی بنا رکھا ہے اور اسلحے کی پیداوار اور خریدوفروخت میں بھی پیش پیش ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اگر اسلح نہ رہے تو ایک دوسرے کو ہڑپ کرجائیں گے۔ مثال کے طور پرجنوبی امریکا میں ایک ملک ہے ’’کوسٹاریکا ‘‘۔یہاں نہ ایٹم بم ہیں اور نہ آئی ایم ایف کا قرضہ ۔تعلیم کا بجٹ 6.2 فیصد ہے جب کہ امریکا اور یورپ کا اوسط تعلیمی بجٹ 4 فیصد ہے۔ شرح خواندگی 97فیصد ہے،1949ء سے اب تک فوج نہیں ہے، پولیس ہفتے میں 5دن ڈیوٹی کرتی ہے، ڈیزل اور پٹرول کا استعمال ممنوع ہے، سارے کام شمسی توانائی سے کیے جاتے ہیں۔آخرایسا کیوں ؟ اس لیے کہ فوج کا خرچہ اور آئی ایم ایف کا قرضہ نہیں ہے۔

سامراجی ممالک تیسری دنیا کے ممالک میں کوئی نہ کوئی رخنہ چھوڑدیتے ہیں جس میں وہ آپس میں لڑتے رہیں اور ہم اس کے شکار بن جاتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ میدان جنگ برقرار رہے اور ان کا اسلحہ بھی بکتا رہے جس سے ان کی کھربوں ڈالرکی آمدنی ہے۔بشکریہ ایکسپریس نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …