جمعرات , 25 اپریل 2024

صدی کی ڈیل اور بحرین کانفرنس

فلسطینیوں کوکیا کرنا چاہیے ؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں پر اسرائیل قبضے پر مزید تصدیق کی مہر ثبت کرنے کے لئے صدی کی ڈیل کے عنوان سے ایک نیا منصوبہ تیار کیا گیا ہے ۔اس منصوبے کے زریعے فلسطینیوں کو بعض معاشی مراعات کے ذریعے حق خود ارادیت اور آزادی کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ان نام نہاد معاشی مراعات کے لیے 25 اور 26 جون کو بحرین کے دارالحکومت منامہ میں ایک اقتصادی کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا جا رہا ہے جسے Manama Economic Workshopکا نام دیا گیا ہے ۔

اس موضوع کی حساسیت کے پیش نظر بہت سے وہ عرب ممالک جو صدی کی ڈیل کی مخالفت کی جرات نہیں کرپارہے ہیں متضاد بیانات دینے میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ بحرین کی اقتصادی کانفرنس میں شریک ہونگے یا نہیں ہونگے ۔اب تک لبنان اور عراق دو ایسے عرب ملک سامنے آئے ہیں جنہوں نے اس کانفرنس میں شرکت سے کھل کر انکار کردیا ہے جبکہ اس کانفرنس اور صدی کی ڈیل کا جھنڈا اٹھانے والوں میں بحرین ،امارات اور سعودی عرب پیش پیش ہیں ۔

کہا جارہا ہے کہ اس کانفرنس میں اسرائیل کو دعوت نہیں دی جائے گی تاکہ شریک عرب حکمران کو رائے عامہ کے سامنے خفت اٹھانی نہ پڑے ۔لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا صدی کی ڈیل سے جڑی ہوئی یہ یہ کانفرنس کامیاب ہوگی ؟ اور کیا صدی کی ڈیل کا منصوبہ ایک کامیاب منصوبہ ہوگا؟

اس کا تمام تر انحصار فلسطینوں پر ہے کہ وہ اس ڈیل کے ساتھ کیسا برتاو کرتے ہیں بظاہر اس وقت تک تمام فلسطینی گروہ متفق دیکھائی دیتے ہیں کہ وہ اس ڈیل کو قبول نہیں کرنے جارہے کہ جس میں ان سے اسرائیلی قبضے کے مقابل معیشتی بہتری کی رشوت دینے کی کوشش ہورہی ہے ۔یہاں تک کہ نتن یاہوحکومت کے علاوہ بہت سے اسرائیلی بھی اس کی کامیابی کے بارے میں مطمئن دیکھائی نہیں دیتے ۔

اسرائیلی خفیہ ادارے کا سابق سربراہ عامی ایالون کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایک تاریخی غلطی ہے جو ہونے جارہی ہے یہ کوئی ٹیکٹکی قدم نہیں بلکہ ایک اسٹرٹیجک غلطی ہے اس کا نتیجہ فلسطینیوں اور اسرائیلوں کے خون کے دریا کی شکل میں نکلے گا اور پورے خطے کو بھڑکا دے گا امن کے لئے اسرائیل کو واپس 1967کی سرحدوں میں جانا ہوگا اور اضافی مقبوضہ علاقے خالی کرنا ہونگے ‘‘عامی یالون کے مطابق بحرین کانفرنس کا اصل مقصد ٹرمپ کی جانب سے نیتن یاہو کو داخلی بحرانوں اور کرپشن کے الزامات سے پچانے کی کوشش ہے ۔

ادھر فلسطینی رہنما مسلسل عرب حکمرانوں سے بحرین اقتصادی کانفرنس کے بائیکاٹ کا مطالبہ کررہے ہیںان کا کہنا ہے کہ ایک ایسی سازشی کانفرنس کہ جس میں خود فلسطینی شریک نہیں ہیں انہیں شریک نہیں ہونا چاہیے ۔لیکن ہم یہاں چند ان اقدامات کو بیان کرسکتے ہیں جو فوری طور پر فلسطینیوں کو اٹھانا چاہیےکہ جس کی اس وقت تک کمی دیکھائی دیتی ہے ۔

الف:فلسطینیوں کو اس وقت عوامی سطح پر فورا تحریک شروع کرنی چاہیے اور کھل کر اس کی مخالفت کا عوامی اظہار ہونا چاہیے ،عوامی تحریک یا انتفاضہ ہی اس قسم کی سازش کا بہترین جواب ہوسکتا ہے

ب:فوری طور پر فلسطینیوں کو ایک عالمی اتحاد تشکیل دینے کی ضرورت ہے اور تمام ممالک خاص کر مسلم ممالک کو اس مسئلے کی جانب متوجہ کرکے اس اس اتحاد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔

نیز خاص کر ان ممالک کو اس میں شامل کیا جائے جو خطے میں امریکی یک جانبہ بالادستی کو قبول نہیں کرتے جیسے چین ،روس وغیرہ ۔اس قسم کے اتحاد کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ عرب ممالک جو اس وقت اس سازش کا حصہ ہیں پر دباو بڑھے گا ۔فلسطینیوں کا چاہیے کہ فوری طور پر تمام عالمی،عربی و اسلامی فورمز کو اپیل کریں اور ان فورمز کا اجلاس بلائیں اور دنیائے اسلام کی عوام تک صدی کی ڈیل اور بحرین کانفرنس کے حقائق بیان کریں ۔بشکریہ فوکس مڈل ایسٹ

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …