جمعہ , 19 اپریل 2024

سیاست میں وراثت کا تسلسل

(تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ)

مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی ملاقاتوں کے بعد ان لوگوں کے دعوے جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں کہ پاکستان کی سیاست پہ قابض مخصوص خاندان غیر سیاسی ہوچکے ہیں۔ یہ دعویٰ زیادہ تر پی ٹی آئی کے ابو کیا کرتے ہیں، سب کچھ سامنے ہونے کے باوجود زیادہ تر لوگ عمران خان کو کسی کی سیاسی میراث ماننے کیلئے تیار نہیں، حالانکہ ساری کسر تو عثمان بزدار نے نکال ہی دی ہے۔ ویسے تو موروثی سیاست کو پسند نہیں کیا جاتا، لیکن موجودہ بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماء، قائدین یا مالکان سبھی آمریت کی کھوکھ سے جنے ہیں، کوئی نہ کوئی فوجی آمر یا انٹیلی جنس چیف ان کے موجد ہیں، دوسرے لفظوں میں ابو ہیں۔ اگر کسی سیاستدان یا سیاستدانوں کے گروپ نے اپنی پارٹی خود بنائی ہے تو بھی اقتدار کی سیڑھی بنا کر دینے والی کوئی نہ کوئی غیر سیاسی قوت ہی ہے۔

یہ دراصل اس دکھاوے کی تبدیلی کو حقیقی تبدیلی ظاہر کرنے کا ایک حربہ ہے۔ الیکشن سے پہلے جو کچھ ہوا اسکی نشاندہی جاوید ہاشمی نے دھرنے میں کر دی تھی کہ بیوروکریٹس میں سے چنے ہوئے ٹیکنوکریٹس اور عالمی اداروں کیلئے خدمات دینے والے پاکستانی ماہرین پر مشتمل حکومت بنائی جائیگی، پس پردہ مقصد یہ بیان کیا گیا کہ پاکستان کو اسوقت اندر سے خطرہ ہے، یعنی ملک کو دہشت گردی، غیر روایتی جنگوں، باہمی اختلافات، سیاسی عدم استحکام، فرقہ واریت اور کرپشن کے ذریعے جو نقصان پہنچایا گیا، اسکا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان اسوقت معاشی طور پر خطرے کے نشان پہ کھڑا ہے، بے شک اب بیرونی طور پر درپیش خطرات پر قابو پا لیا گیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی باگ ڈور محفوظ ہاتھوں میں دی جائے، تاکہ معاشی چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکے، اس طرح پاکستان کو پچایا جا سکتا ہے، ورنہ ملک ٹوٹنے کا خطرہ ہے۔

روایتی سیاستدانوں اور پہلے سے موجود پارٹی سسٹم کو تباہ کرنے کے پیچھے ان عوامل کی براہ راست نشاندہی نہیں کی گئی، لیکن جو ماحول بنایا گیا، اس سے بتانے کی کوشش کی گئی کہ کرپشن دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ہے۔ جیسا کہ موجودہ سعودی عسکری اتحاد کے کمانڈر ان چیف راحیل شریف نے کراچی سمیت تاجروں سے ملاقاتوں کے دوران چند دفعہ اسکا اظہار کیا کہ دہشت گردی کے پیچھے کرپشن ہے اور ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن سمیت پیپلزپارٹی سندھ کے رہنماؤں کیخلاف مقدمات کھولے گئے، اسی طرح پنجاب میں لیگی رہنماؤں کیخلاف پانامہ کیس میں اقامہ کو بنیاد بنا کر انہیں نااہل قرار دیکر سیاست سے بے دخل قرار دینے اور رائے عامہ کو باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ امریکہ اور انڈیا کے ایماء پر پاکستان کیخلاف ہونیوالی دہشت گردی کی طرح کرپشن کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔

لیکن ہوا کیا، اگر سیاست اور حکومت کی بات کی جائے تو، آج بھی جو شخص پاکستان میں جتنے بڑے منصب پہ فائز ہے، وہی سب سے بڑا ٹیکس نادہندہ ہے، اس میں کرپشن کی تعریف کے تمام پہلو موجود ہیں۔ پھر وہ کونسی کرپشن تھی جسے ختم کرنے کی کہانی گھڑی گئی، سیاسی ڈھانچے کو تباہ کیا گیا، نئی لیڈرشپ متعارف کروائی گئی، عوام کو سہانے خواب دکھائے گئے، حالانکہ 2018ء کے الیکشن کے موقع پر جتنی سیاسی جماعتوں میں جتنے موروثی سیاستدان تھے، انہیں ایک نئے سیاسی فرزند کی کمان میں اکٹھا کیا گیا اور تھرڈ پارٹی کے نام پر ٹیکنوکریٹس، بیوروکریٹس اور بات ماننے والے کمزور اور محدود طاقت کے حامل مجبور موروثی سیاستدانوں کو ہانک کر اسلام آباد میں بٹھا دیا گیا، پنجاب کی مثال تو سب سے نرالی ہے، یہاں تو غلام ابن غلام ابن غلام کی گردان بھی کم پڑ جاتی ہے۔

رہی بات مریم نواز اور بلاول بھٹو کو موروثیت کے طعنے دینے والوں کی، تو اس سے انکار کوئی نہیں کرسکتا کہ پہلی حکومتوں نے کرپشن کی ہے، اسکا احتساب ہونا چاہیئے، ان سے ریکوری ہونی چاہیئے، لیکن کمزور معیشت اس موجودہ حالت سے باہر نہیں آسکتی۔ البتہ طعنے دینے والوں کے متعلق عام اذہان سے کیسے محو کیا جا سکتا ہے کہ جہادی ابو، سیاسی ابو اور اب عربی ابوؤں کی اولاد یہ کیسے کہہ رہی ہے کہ موجودہ سیٹ اپ کے ذریعے پاکستان سے موروثی سیاست کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ خود پی ٹی آئی میں اپنی سوچ رکھنے والے رہنماؤں کو سر اٹھانے کی اجازت نہیں، بس پہلے حکمرانوں کی طرح قاف لیگ، پی پی پی اور نون لیگ میں پارٹی قیادت کی تابعداری کرکے کرپشن میں سے اپنا حصہ بٹورنے والے قلیل گروہ کو کام پہ لگایا گیا ہے۔ عمران خان سیلف میڈ کھلاڑی ہیں، لیکن اقتدار تک اپنی صلاحیت اور اہلیت کی بنیاد پہ نہیں پہنچے، اسی لیے انکی اپیلیں پاکستان عوام کیلئے کارگر ثابت نہیں ہو رہی ہیں، پاکستان کا مستقبل عوام کے بہتر سیاسی شعور سے وابستہ ہے، تانے بانے بننے والے آتے اور جاتے رہینگے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …