جمعرات , 25 اپریل 2024

افغان صدر کا دورہ پاکستان

پاکستان کے دورے پر تشریف لائے افغان صدر اشرف غنی اور وزیر اعظم عمران خان کے مابین دوطرفہ تعلقات میں بہتری کی نئی کوششوں پر اتفاق ہوا ہے۔ ملاقات میں افغان صدر نے افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہا اور وفود کی سطح پر مذاکرات میں طورخم بارڈر کو 24گھنٹے کھلا رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے مہمان صدر کو باور کرایا کہ افغان تنازع کے خاتمہ کا واحد ذریعہ مذاکرات ہیں۔ افغان صدر نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور بعد ازاں لاہور کے دورہ کے دوران صوبائی حکام سے ملاقاتیں کیں۔ پاکستان اور افغانستان ہمسایہ برادر مسلم ہیں۔ سوویت یونین کی جانب سے مسلط کردہ جنگ اور بعد ازاں دہشت گردی کے انسداد کی کوششوں میں دونوں کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

افغانستان میں امن اور استحکام ہونے کی صورت میں پاکستان وسط ایشیائی ممالک سے تجارتی رابطے کم وقت میں بڑھا سکتا ہے۔ وسط ایشیا سے گیس اور بجلی کی فراہمی کے منصوبے قلیل مدت میں مکمل ہو سکتے ہیں۔ افغانستان پاکستان کی بندرگاہوں کے ذریعے مال کی بیرون ملک آمد و رفت کی سہولیات سے استفادہ کرتا ہے۔ افغانستان کی غذائی ضروریات پاکستان میں اگائے گئے اناج سے پوری ہوتی ہیں۔ افغانستان میں ادویات پاکستان سے جاتی ہیں۔ اسی طرح افغان کسان اپنا پھل پاکستان کی مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔ پاکستان نے کئی عشروں سے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔ دونوں کی سرحدی حدود ڈھائی ہزار کلومیٹر کے لگ بھگ طویل ہیں۔ دونوں طرف بسنے والے لوگ ایک دوسرے سے کئی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔

گویا دونوں ملک ایک دوسرے کے مفادات کے محافظ ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا فوری نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ افغان طالبان کو پاکستان نواز سمجھا جاتا تھا اس لیے نئے حکومتی بندوبست میں اس امر کا بطور خاص اہتمام کیا گیا کہ افغانستان میں پاکستان اثر و رسوخ کو کم کیا جائے۔ لگ بھگ گیارہ برس تک حامد کرزئی افغانستان کے صدر رہے۔ ان کے پورے دور اقتدار میں پاکستان کے خلاف بھرپور مہم چلائی گئی۔ تعلقات میں کشیدگی یہاں تک جا پہنچی کہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں جنرل پرویز مشرف اور حامد کرزئی کے درمیان تلخ جملوں کا براہ راستہ تبادلہ ہوا۔ حامد کرزئی کے بعد اشرف غنی افغانستان کے حکمران بنے۔

صدر اشرف غنی معاشی امور کے ماہر اور حامد کرزئی کی نسبت بہتر سوچ کے مالک سمجھے جاتے ہیں ان سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ منصب صدارت سنبھالنے کے بعد پاکستان سے کشیدہ تعلقات کو معمول پر لائیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ گزشتہ برس پاکستان نے ازبکستان میں ایک کانفرنس کے دوران جب افغانستان کے ساتھ تجارتی معاہدے کی پیشکش کی تو افغان صدر نے غیر ضروری طور پر اس معاہدے میں بھارت کو شامل کرنے پر اصرار کیا۔ اس سے پہلے بھی افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ کو دو طرفہ معاملہ رکھنے کی بجائے بھارت کو اس کا حصہ بنانے کی ضد کرتا رہا ہے۔ پاکستان اگر افغانستان کی بات تسلیم کر لے تو بھارت کو خطے میں سٹریٹجک نوعیت کا تجارتی غلبہ حاصل ہو سکتا ہے جو پاک بھارت تعلقات کی موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے ناقابل قبول قرار دیا جا سکتا ہے۔

حالیہ عرصے میں امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اب تک مذاکرات کے چند مرحلے ہو چکے ہیں۔ ساتواں مرحلہ شروع ہو رہا ہے۔ ان مذاکرات میں امریکی انخلائ، انخلا کے بعد کے انتظامی امور اور افغانستان کو دہشت گردوں سے پاک رکھنے کے معاملات پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا ہے۔ طالبان نے چین، روس اور پاکستان کے حکام سے الگ الگ بات چیت کی ہے۔ یہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک ہیں اور افغانستان کی داخلی صورت حال سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔ اس دوران امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنوبی ایشیا کے لیے اپنی نئی پالیسی لے آئے۔ یہ پالیسی پہلے سے امریکی اقدامات کی تائید کرتی ہے۔

اس پالیسی میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ افغانستان کا تنازع امریکی خواہشات کے مطابق طے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کا افغانستان میں اثرورسوخ ختم یا کم کیا جائے۔ اس منظر نامے میں امریکہ کوشش کر رہا ہے کہ طالبان کا بل حکومت کے ساتھ براہِ راست بات چیت پر آمادہ ہو جائیں۔ طالبان اب تک اس مطالبے کو پورا کرنے پر آمادہ نہیں۔ چند ہفتے قبل جب روس میں افغان رہنما اور طالبان ایک ہی تقریب میں جمع ہوئے تو طالبان نے وہاں بھی کابل حکومت سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ صدر اشرف غنی پاکستان کے لیے درخواست لے کر آئے ہوں کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے جس طرح طالبان کو امریکہ سے بات چیت پر آمادہ کر چکا ہے اسی طرح انہیں اشرف غنی حکومت سے مذاکرات پر رضا مند کرے۔

کچھ سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ افغان تنازع کا جلد حل چاہتے ہیں اور اس سلسلہ میں وہ پاکستانی قیادت سے براہ راست ملاقات کا سوچ رہے ہیں۔ صدر اشرف غنی افغان تنازع میں امریکی مفادات کے محافظ ہیں۔ اس لیے بعید نہیں کہ وہ ممکنہ ملاقات سے قبل امریکی صدر کا کوئی اہم پیغام لے کر پاکستان تشریف لائے ہوں۔ طورخم بارڈر چوبیس گھنٹے کھلا رکھنے سے دوطرفہ تجارت فروغ پائے گی۔ صدر اشرف غنی کی ملاقاتوں سے دونوں ممالک کے درمیان سرحدوں پر باڑ لگانے اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے معاملات سمیت مجموعی طور پر تعلقات میں بہتری کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ بشکریہ 92 نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …