منگل , 23 اپریل 2024

‘بحرین کانفرنس’ مفروضوں پر کھڑی کھوکھلی عمارت!

وائٹ ہائوس کی ویب سائٹ پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینیر مشیر اور داماد جیرڈ کشنر کا مشرق وسطیٰ کے حوالے سے تیار کردہ 38 صفحات پر مشتمل پلان شائع کیا گیا۔ اس پلان میں فلسطین کے لیے جاپان اور جنوبی کوریا کی مثال دی جا رہی ہے۔ کشنر کے پروگرام میں کیا کچھ تھا اور کیا نہیں تھا۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

اسرائیل سے تعلقات کا کوئی جواز نہیں

قضیہ فلسطین جس کا جوہری اور بنیادی پہلو سیاسی ہے مگر کشنر کے پیش کردہ طویل وعریض پروگرام میں کہیں بھی فلسطینیوں کے سیاسی حقوق کی طرف براہ راست یا بالواسطہ اشارہ نہیں‌ کیا گیا۔ یوں یہ پروگرام ہر اعتبار سے صرف ‘معاشی منصوبہ’ ہے۔ اس پروگرام میں کہیں بھی فلسطینیوں کے مسائل کے حتمی حل کی طف کوئی اشارہ نہیں‌ کیا گیا بلکہ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کا الگ الگ ذکر کیا گیا ہے۔ یوں امریکا اور اسرائیل کے منصوبے کے تحت فلسطین کو اسرائیل میں وہی حیثیت حاصل ہوگی جو عراق میں کردستان کو حاصل ہے۔

کشنر کے پروگرام میں ‘انتظامی، گورننس اور پبلک سیکٹر کی اصطلاحات استعمال کی گئیں۔ ان میں فلسطینیوں کے لیے سیاسی اتھارٹی کی کوئی بات نہیں‌ کی گئی۔ فلسطینیوں کو دیئے کے اختیارات عراق کے کردستان صوبے کو دیے گئے اختیارات سے مختلف ہرگز نہیں ہوں گے۔

کشنر کے پروگرام کا مطالعہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا ‘فلسطینستان’ کے پروگرام پرعمل پیرا ہے جس میں دو اہم تزویراتی اقدامات کیے گئے ہیں۔

علاقائی اتھارٹی

غرب اردن اور غزہ کی پٹی کو عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان معاشی پل کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کے متن میں درج الفاظ کہ ‘غرب اردن اور غزہ کی مارکیٹوں کو مصر، اردن، اسرائیل اور لبنان کے ساتھ جوڑنا ہے’۔ مگر شام کو ان ملکوں میں شامل نہیں کیا گیا حالانکہ مصرکی نسبت شام فلسطینیوں کے لیے جغرافیائی اعتبار سے زیادہ قریب ہے۔ تاریخی، آبادیاتی اور سیاسی اعتبار سے بھی شام اور فلسطینیوں کے موقف میں ہم آہنگی ہے۔

منصوبے میں سمندر پار فلسطینیوں کو نظر انداز کیا گیا اور یہ ظاہر کیا گیا کہ وہ جہاں ہیں وہیں پر اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔

مفروضے

کشنر کے پروگرام کے اقتصادی اور سماجی پہلوں میں جن امور پر بحث کی جا رہی ہے۔ ان میں تعلیم، صحت، عدلیہ، سرمایہ کاری، انٹرنیٹ، آبی وسائل اور بجلی وغیرہ شامل ہیں مگر باریکی سے دیکھا جائے تو اس کے درج ذیل مزید پہلو سامنے آتے ہیں۔

امریکی منصوبے میں کل 50 ارب ڈالر کی رقم کے فنڈز جمع کرنے کی تجویز پیش کی گئی مگر یہ رقم کیسے حاصل کی جائے گی؟یہ پچاس ارب ڈالر کی رقم سالانہ 5 ارب ڈالر کے حساب سے 10 سال تک فراہم کی جائے گی۔

اس سالانہ 5 ارب ڈالر کی رقم میں سے کچھ امداد اور کچھ قرض کی شکل میں ادا کی جائے گی۔ منصوبے کے مطابق فلسطینیوں کے لیے معاشی پروگرام کے تحت 51 عشاریہ 8 فی صد رقم قرض، 49 اعشاریہ 2 فی صد عطیات کی شکل میں ادا کی جائے گی۔ یوں اگر اعدادو شمار جمع کیے جائیں تو پہلے مرحلے میں 34 کروڑ 80 لاکھ ڈالر امداد ہوگی۔ یہ امداد اگر تمام فلسطینیوں میں مساوی طور پر تقسیم کی جائے گی تو فی کس 232 ڈالر آتی ہے۔ اگر اس میں ہم اردن، مصر، لبنان اور اسرائیل کو دی جانے والی ڈونیشن کو فی کس میں تقسم کریں تو ان ملکوں کے لیے فی کس 25 اردنی دینار آتے ہیں۔

کشنر کے منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو دی جانے والی رقم ایک فنڈ کی صورت میں رکھی جائے گی جس پرحاصل ہونے والا منافع بھی جمع خرچ میں شامل ہوگا۔ یہ فنڈ اس سے مستفید ہونےوالے تمام ممالک کے اشتراک سے کام کرے گا۔ یوں فلسطینیوں کو دی جانے والی رقم کی نگرانی اوراسرائیل سمیت خطے کے دوسرے تین عرب ممالک بھی کریں گے۔

مذکورہ اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر درج ذیل نتائج مرتب کیے جا سکتے ہیں۔

ماضی میں بھی فلسطینیوں کے لیے امداد کی فراہمی کی کئی کانفرنسیں ہوئیں۔ ان میں پیرس اور عرب سپورٹس کانفرنسیں شامل ہیں مگر ان پر عمل درآمد بہ تدریج کم ہوتا رہا۔ بہت سی ڈونر کانفرنسوں میں جاری کردہ اعلانات ذرا برابر بھی عمل درآمد نہیں‌ کیا گیا۔ فلسطینیوں کے حوالے سے مغرب اور اسرائیل کے درمیان بھی جو معاہدے طے پائے ان پر بھی عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اوسلو معاہدہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔

اس طرح کی کانفرنسوں کا اصل مقصد فلسطینیوں سے اسرائیل کے حق میں فیصلوں‌ پر دستخط کرانا اور اس کے بعد پوری دنیا کا فلسطینیوں کے حقوق سے صرف نظر کرنا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے ساتھ جاری سیکیورٹی تعاون سے ممطمئن نہیں۔ میرا خیال ہے کہ بحرین کانفرنس میں شرکت کرنے والی بعض فلسطینی شخصیات کے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ بھی در پردہ روابط ہیں۔ اوسلو معاہدے کے پیچھے بھی توحیدر عبدالشافی نامی ایک شخص تھا۔ اگر میں فلسطین میں پراسیکیوٹر جنرل ہوتا تو میں اس پروگرام میں شامل ہونے والے ہر فلسطینی کو گولی مارنے کا حکم دیتا۔ ہمیں قضیہ فلسطین کے لیے نہیں بلکہ اس کے خلاف سازشیں کرنے والوں کے لیے کفن تیار کرنا چاہئیں۔بشکریہ مرکز اطلاعات فلسطین

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …