ہفتہ , 20 اپریل 2024

تین خفیہ رپورٹیں

(محمد عرفان صدیقی)

میں ایک بڑے سرکاری افسر کے دفتر میں بڑے انہماک سے ان خفیہ رپورٹوں کو پڑھنے میں مصروف تھا جو اب زائد المیعاد ہونے کے بعد داخل دفتر ہونے جارہی تھیں لیکن جیسے جیسے ان خفیہ معلومات سے آشنا ہوتاگیا ایسا محسوس ہواکہ ایک ایک کرکے ہمارے معاشرے کا لباس اترتا جارہا ہو اور مجھے پورا معاشرہ لالچی اور بیمار لوگوں پر مشتمل محسوس ہورہا تھا اور یقین کریں اگر صرف ان تین رپورٹوں پر عمل درآمد ہوجاتا تو ملک کے پچاس فیصد مسائل نہ صرف حل ہوجاتے بلکہ حکومت کو بھی زبردست کریڈٹ جاتا لیکن نہ جانے بیوروکریسی کیوں حکومت اور قوم کا بھلا نہیں چاہتی اور اتنی شاندار اور محنت کے بعد بننے والی رپورٹوں پر عمل درآمد کے بجائے انھیں داخل دفترکرنے کے احکامات جاری کردیئے گئے،ان رپورٹوں کا تعلق یوں تو پنجاب کے ایک بڑے شہر سے ہے لیکن ان پر عمل پورے پاکستان میں ہونا چاہیے جس کے لیے وزیر اعظم کی توجہ ضروری ہے۔

رپورٹ نمبر ایک:غیر معیاری تیل۔ غیر معیاری تیل کی تیاری اور ڈسٹری بیوشن کے باعث پاکستان کا ہر تیسرا فرد دل کا مریض بن چکا ہے۔ رپورٹ کی تیاری کے دوران حکام نے شہر کے چوالیس مقامات جن میں شادی ہالز،ہوٹلز،فوڈ پوائنٹس اور کریانہ اسٹورز شامل ہیں،سے تیل اور گھی کے نمونے حاصل کئے۔ لیبارٹری ٹیسٹنگ کے نتائج کے مطابق چوالیس میں سے تیس نمونے انتہائی غیر معیاری اور مضر صحت پائے گئے۔ ان نمونوں میں فری فیٹی ایسڈ کی مقدار حد سے زیادہ تھی جو انسانی بلڈ پریشر کو تیز کرتا اور دل کی کئی بیماریوں کا سبب بھی بنتا ہے،نکل نامی دھات بھی گھی بنانے میں استعمال ہوتی ہے لیکن گھی کو فلٹر کرنے کے بعد یہ چیک نہیں کیا جاتا کہ اس میں نکل کی کتنی مقدار باقی ہے، نکل دراصل کینسر کا سبب بننے والی دھات ہے جو انسانی جسم کے لیے مضر صحت ہے ساتھ ہی کئی کمپنیاں اپنی پیکنگ پر وٹامن اے اور ڈی کی مقدار بھی تحریر کرتی ہیں لیکن اس مقدار کو جانچنے کے لیے کوئی لیبارٹری موجود نہیں ہے لہٰذا یہ بھی نہیں جانچا جاسکتا کہ آیا مذکورہ وٹامن گھی میں موجود ہیں بھی یا نہیں جبکہ گھی میں غیر معیاری اشیاء کی ملاوٹ کے سبب گھی کا میلٹنگ پوائنٹ جسم کے درجہ حرارت سے بڑھ جاتا ہے جس کے سبب گھی کے اجزاء انسانی شریانوں میں جم جاتے ہیں اور جسمانی درجہ حرارت پر پگھل نہیں پاتے یوں دل کی سنگین بیماریوں کا سبب بنتے ہیں جس میں ہارٹ اٹیک اہم ترین بیماری ہے، گھی اور تیل کے بعض نمونوں میں ڈسٹل فیٹی ایسڈ بھی پایا گیا ہے یہ کیمیکل صابن بنانے میں استعمال ہوتاہے اس کی رنگت بھی گھی جیسی ہوتی ہے یہ کیمیکل انتہائی مضر صحت ہے اور دل کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے، اس کے ساتھ ہی چکل آئل کا استعمال بھی معاشرے میں بہت بڑھ چکا ہے یہ آئل جانوروں کی انتڑیوں اور چربی سمیت دیگر باقیات سے تیار ہوتا ہے اور انتہائی مضر صحت ہوتا ہے اور کم قیمت ہونے کے سبب بازاروں میں کھلے عام استعمال ہوتا ہے۔رپورٹ کے مطابق تیل اور گھی پر ستر روپے فی کلو سے سو روپے فی کلو منافع کمایا جارہا ہے جومقررہ حد سے بہت زیادہ ہے۔سرکاری ادارے کی اس اہم رپورٹ کوایک سرکاری افسر نے داخل دفتر کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے عوام کو تیل مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے،صرف پنجاب کے ایک شہر میں دل کے مریضوں کی تعداد تین لاکھ سے بڑھ کر چھ لاکھ تک پہنچ گئی ہے اور یہ اعداد و شمار مذکورہ شہر کے دل کے اسپتال سے حاصل کیے گئے ہیں۔

رپورٹ نمبر دو:ایڈز کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد۔اب سے کچھ عرصہ پہلے تک یہی سننے میں آیا تھا کہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں ایک ڈاکٹر نے اپنی ایڈز کی رپورٹ مثبت آنے کے بعد انتقامی طور پر علاقے کے لوگوں کو غلط انجکشن کے ذریعے ایڈز کے مرض میں مبتلاکرنا شروع کردیا تھا اور لاڑکانہ میں کئی ہزار ایڈز کے مریضوں کی موجودگی کاانکشاف بھی ہوا تھا تاہم اب پنجاب کے شہر فیصل آباد اور اس کے نواح میں بھی ڈھائی ہزار ایڈز کے مریضوں کی موجودگی کا انکشاف مذکورہ رپورٹ میں ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک غیر سرکاری تنظیم فیصل آباد اور اس کے نواحی علاقوں میں ایڈز کے مرض کی تشخیص کے لیے مفت ٹیسٹ کررہی ہے اس ٹیسٹ کے اخراجات مذکورہ این جی او ادا کررہی ہے اور جس مریض میں ایڈز کی تشخیص ہوجائے اسے دوائوں کے سہارے پوری زندگی گزارنا پڑتی ہے جس کے اخراجات بھی مذکورہ این جی او ہی ادا کررہی ہے تاہم حکومت کو ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت ملک کے اہم شہروں میں سرکاری سینٹرز قائم کرنا ہونگے تاکہ مریض کی پرائیویسی متاثر کیے بغیر اس کا علاج کیا جاسکے،جبکہ حکومت کو ملک میں ایڈز کے پھیلائو کی وجوہات بھی جاننا ہونگی اور اس کے تدارک کے لیے انتظام کرنا ہوگا۔

رپورٹ نمبر تین :مصنوعی مہنگائی اور اس کا تدارک۔ رپورٹ کے مطابق کسان جو زرعی اجناس اور پھل پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے اسے تو اس کی محنت کا صحیح معاوضہ نہیں مل پاتا لیکن آڑھتی اور دکاندار اتنا زیادہ نفع حاصل کرتے ہیں جس سے عام آدمی مہنگائی کے بوجھ تلے دب جاتا ہے، جس کی مثال خربوزے کے حوالے سے پیش کی گئی ہے کہ جو آڑھتی ہول سیل ریٹ پر پچاس روپے فی کلو فروخت کرتا ہے جس کے بعد دکاندار عام آدمی کو وہ خربوزہ ایک سو دس روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کررہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق زرعی اجناس اور پھل کو عام آدمی تک پہنچانے کے عمل پر حکومتی مانیٹرنگ ہونی چاہیے تاکہ عام آدمی غیر ضروری مہنگائی سے بچ سکے، میں صرف تین خفیہ رپورٹیں ہی پڑھ سکا تھا جبکہ ابھی پبلک ٹوائلٹس کی حالت زار اور سرکاری تعلیمی اداروں کے مسائل سمیت کئی رپورٹیں باقی تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر حکومت عوام کے ان بنیادی مسائل پر قابو پالے تو معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں اور اس کے لیے صرف حکومت کو بیوروکریسی کو ذمہ دار بنانا ہوگا اور ان پر چیک اینڈ بیلنس بہتر کرنا ہوگا ورنہ جس طرح معاشرے میں مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ ڈر ہے کہ عام آدمی سڑکوں پر نہ نکل آئے اور جب بھوک سے ستایا ہوا انسان اپنی بھوک مٹانے سڑکوں پر آتا ہے تو اس وقت کوئی قانون اور کوئی قدغن اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو نہیں روک پاتی پھر چاہے اس کے سامنے حکمران ہو یا ان کے گریباں،عقلمندی یہی ہے کہ بیماری سے پہلے ہی علاج کا بندوبست کرلیا جائے، تھوڑے لکھے کو بہت جانیں۔بشکریہ جنگ نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …