جمعرات , 25 اپریل 2024

جاپان میں ہونے والی جی 20کانفرنس

ایران اہم موضوع رہا

فرانسی صدر ماکرون اور ٹرمپ کے درمیان ہونے والے مذاکرات کہ جس کا ایک اہم موضوع ایران تھا کے درمیان کوئی خاص پیشرفت دیکھائی نہیں دیتی ۔ماکرون کا خیال تھا کہ ٹرمپ کو ایران پر یکجانبہ لگائی جانے والی پابندیوں کو ختم یا کم کرنا چاہیے تاکہ ایران کے ساتھ مزید ایشوز پر مذاکرات کے دروازے کھل جائیں ۔اب یہ نہیں معلوم کہ ایسا ماکرون خود اپنی جانب سے کر رہا تھا یا پھر یہ ایران کے ساتھ ہم آہنگی کے بعد سامنے آیا ہے لیکن ماکرون جاپان جاتے ہوئے ایرانی ہم منصب صدر روحانی سے ٹیلی پر بات چیت کرچکا تھا اور ایران اب تک معاہدے کی تمام شکوں پر عمل در آمد کررہا ہے ۔

بظاہر لگ رہا ہے کہ یورپی ممالک ایران کی ڈیٹ لائن کے خاتمے کے بعد کچھ مزید مہلت کے خواہاں تھے ۔ایران کی جانب سے ایک بار پھریہ تاکید بھی کی گئی تھی کہ وہ کسی قسم کی کشیدگی اور جنگ کے خواہاں نہیں ہیں لیکن اگر انہیں ایسی صورتحال سے دوچار کردیا تو وہ کرار جواب دینگے ۔فرانسی صدر ماکرون کی پریس کانفرنس سے صاف صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ جن توقعات کے ساتھ ٹرمپ کے ملاقات کررہا تھا اس کا گراف بہت نیچے گر چکا ہے لہذا ماکرون نے پریس کانفرنس میں لہجہ بدلتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارا کردار دراصل یہ تھا کہ ہم کشیدگی کو کم سے کم کریں ‘‘

واضح رہے کہ اس ملاقات سے صرف دو گھنٹے پہلے ہی امریکی مندو ب کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ ’’یورپی کمپنیاں یا تو ہمارے سے چلیں یا پھر ایران کے ساتھ ‘‘واضح رہے کہ ایران کے ساتھ تجارت کے لئے یورپ کی جانب سے بنائے جانے والا مالیاتی نظام جو کہ قدرے اپنی فعالیت شروع کرچکا ہے یورپ کافی خوش فہمی میں دیکھائی دیتا ہے یا پھر اس کوشش میں ہے ،یورپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ مزید آٹھ ممالک اس نظام کے ساتھ جڑنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں ۔لیکن کیا اس مالیاتی نظام میں اتنی دم خم ہے کہ وہ ایک وسیع تجارت کے تبادلے اور رقوم کی ترسیل کا زریعہ بن سکتا ہے ؟

یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس کے بارے میں ایرانی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ’’یہ ایسا ہی ہے جیسے یورپی شعبدہ باز ٹوپی سے کبوتر نکال کر خوش کرنے کی کوشش کرے لیکن کبوتر کے بجائے کوا نکل آئے‘‘واضح رہے کہ اس نظام میں بنیادی طور پر ادویات اور غذائی اجناس کی ترسیل پر فوکس رکھا گیا ہے جو کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے لگائی جانے والی قانونی پابندیوں میں بھی استثنا رکھتے ہیں،جس کے لئے الگ سے کسی مالیاتی نظام کی ضرورت نہیں ۔

ادھر اسی اثنا میں روسی صدر پیوٹن اور ٹرمپ کی ملاقات ہوئی کہ جس کا ایک اہم موضوع شام اور ایران کے تعلقات بھی رہا ۔لیکن لگتا ایسا ہے کہ اس ملاقات میں ٹرمپ کو پیوٹن کی جانب سے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا پریس کانفرنس میں پیوٹن کی جانب سے صرف اتنا کہا گیا کہ’’شام کے ایشو پر امریکہ کے ساتھ بہتر انداز سے رابطے میں ہیں‘‘واضح رہے کہ یہاں بات بہتر اتفاق کی نہیں ہو رہی بلکہ بہتر رابطے کی ہورہی ہے ۔

ہوسکتا ہے کہ روس اپنے وسیع تر مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہے یہ سوچے کہ شام میں دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ایران اپنی موجودگی کو ختم کرے جیسا کہ بعض اوقات ان کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ شام سے تمام غیر ملکی افواج کو نکلنا چاہیے ۔لیکن کیا روس ایسا کرنے کی پوزیشن رکھتا ہے ؟ شام اور ایران دو اہم ممالک ہیں جن کا مفادات انتہائی مشترکہ ہیں اور ایرانی عسکری ایڈوئزز کی موجودگی شام کی دعوت پر ہے لہذا کوئی تیسرا ملک کیسے یہ بات کہہ سکتا ہے خاص کر روس کہ جنہیں مشرق وسطی تک رسائی ہی شام اور ایران کے سبب ملی ہے اور اسی رسائی کے بعد ہی روس کا بین الاقوامی کردار کھل کر سامنے آیا ہے ۔

روس جب کہتا ہے کہ شام سے غیر ملکی افواج کو جانا چاہیے تو اس سے اس کی مراد وہ افواج ہیں جو وہاں زبردستی گھس آئی ہیں جیسے امریکی اور ترک افواج اور ان کی حامی فورسز ہیں ۔بشکریہ فوکس مڈل ایسٹ

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …