بدھ , 24 اپریل 2024

امریکی پابندیاں ایران کو نہیں ڈرا سکتیں

(ظہیر اختر بیدری)

دنیا کے امن کو جن تنازعات سے خطرہ ہے ، ان میں سرفہرست ایران امریکا تنازعہ ہے اور یہ تنازعہ برسوں نہیں عشروں پرانا ہے اور وقفے وقفے سے تازہ ہوجاتا ہے۔ حال ہی میں امریکا کی طرف سے ایران پر جو مزید پابندیاں ’’تیل کی فروخت کے حوالے سے‘‘ لگائی گئی ہیں، اس پر ایران کا ردعمل فطری ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے حالیہ امریکی پابندیوں کے حوالے سے سرکاری ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ امریکی حکومت کے سفاک عہدیدار ایران پر الزامات عائد کرتے ہیں اور ایران کی توہین کرتے ہیں۔ایرانی قوم اس طرح کی توہین آمیزی سے پیچھے نہیں ہٹے گی اور نہ سرنگوں ہوگی ، انھوں نے کہا کہ امریکا کی مذاکرات کی پیشکش ایک دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر ہتھیار آپ کے پاس ہیں تو وہ آپ کے نزدیک آنے کی جرأت نہیں کریں گے۔ امریکی یہ چاہتے ہیں کہ ہم ہتھیاروں سے دستبردار ہوجائیں تاکہ وہ ہمارے ساتھ جو چاہیں کرتے رہیں‘‘۔

ادھر امریکی صدر ٹرمپ نے مذاکرات کے حوالے سے ایک ’’دھمکی آمیز دوستانہ ‘‘ بیان میں کہا ہے کہ ایران کے ساتھ اول تو جنگ کی نوبت نہیں آئے گی لیکن اگر جنگ ہوئی تو طاقتور امریکا ہی ثابت ہوگا۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ اول تو جنگ نہیں ہوگی اگر ہوگی تو وہ طویل نہیں ہوگی۔ امریکا ایران کو اپنی زمینی فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، اگر ایرانی حکومت جوہری تنازعہ پر بات چیت کی طرف نہیں آئی تو یہ اس کی بڑی بے وقوفی ہوگی اور انا پرستی کا واضح ثبوت بھی ہوگی۔ اس سے کچھ دن پہلے ٹرمپ نے کہا تھا کہ جنگ کی صورت میں ایران کو جلد گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں گے۔ موصوف نے مزید فرمایا کہ جنگ کی صورت میں ہر طرح سے امریکا کا پلڑا بھاری رہے گا۔
ایران پر امریکی دباؤکی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایران خطے میں امریکا کا واحد مخالف ملک ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں مسلم ملکوں کی بڑی تعداد امریکا کی جی حضوریوں پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا ایران کو مسلسل دبائے رکھنے کی پالیسی پرگامزن ہے۔ ہمارے ملک سمیت مسلم ملکوں کے دینی رہنما اسرائیل کی مذمت کرتے ہیں۔ اسرائیل کی مذمت کے بجائے مذہبی جماعتیں ایران اور عربوں کے درمیان موجود تنازعات حل کرنے کی کوشش کریں اور مشرق وسطیٰ کے مسلم ملکوں میں اتحاد اور یگانگت پیدا کرنے کی کوشش کریں تو یہ کام زیادہ فائدہ مند ہوگا۔

مسئلہ کشمیر کو ہماری محترم قیادت مسلمانوں کا اجتماعی مسئلہ کہتی ہے ، اسی طرح فلسطین کے مسئلے کو بھی امہ کا اجتماعی مسئلہ کہتی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ایران اور پاکستان سے مالدار مسلم ملکوں خاص طور پر عرب ملکوں کے تعلقات بھارت سے کم ترین سطح پر ہیں۔ بین الاقوامی امور میں مالدارعرب ملک پاکستان اور ایران کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دیتے ہیں ،کیا ہماری مذہبی قیادت اس مسئلے پر عرب ملکوں کے رویے کے مضمرات سے واقف ہے؟

نوآبادیاتی دورمیں انگریزوں نے لڑاؤ اور حکومت کروکی ، پالیسی اپنا کر بے حد فائدے اٹھائے اور علاقے کے دوسرے متعلقہ ملک دانستہ یا نادانستہ انگریزوں کے فلسفے پر عمل کرتے رہے، نتیجہ یہی نکلا کہ انگریزوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔آج امریکا مشرق وسطیٰ میں انگریزوں کی پالیسی پرگامزن ہے اور خوب سیاسی اور اقتصادی فائدے اٹھا رہا ہے۔ ایران سے مخالفت کی وجہ سے عرب ملک جن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پیش نہیں ہیں ایران سے بچاؤ کی خاطر مغربی ملکوں خصوصاً امریکا سے اربوں نہیں بلکہ کھربوں ڈالرکا اسلحہ خرید رہے ہیں ۔

اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ یہ اسلحہ اسرائیل سے بچاؤ کے لیے نہیں بلکہ ایران کے فرضی خوف سے خریدا جا رہا ہے۔ بھارت آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک اور ایک بہت بڑی منڈی ہے اور دنیا کے ملک اس بڑی منڈی تک رسائی کے لیے ہر رشتے پر دوستی کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ پاکستان ایک مسلم ملک ہے لیکن مسلم ملکوں خصوصاً عرب ملک پاکستان سے دوستی کے باوجود بھارت کے زیادہ قریب ہیں اس کی وجہ اقتصادی مفادات ہیں۔

ہم مذہب کے حوالے سے عرب ملکوں سے زیادہ قربت اور معاشی مفادات چاہتے ہیں لیکن عرب ملکوں کے معاشی مفادات پاکستان اور ایران کے مقابلے میں غیر اسلامی ملکوں سے زیادہ گہرے ہیں۔ یہ بات امہ کی سمجھ میں آنی چاہیے کہ مذہبی رشتوں کے بجائے آج کی دنیا اقتصادی رشتوں کو زیادہ اہمیت دیتی ہے ۔ آج کی دنیا میں اقتصادی تعلقات کے مقابلے میں مذہبی تعلقات کی اہمیت کم سے کم ہوگئی ہے اور یہ سرمایہ دارانہ نظام کا ہی جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ امریکا کے تعلقات عرب ملکوں سے زیادہ اہمیت کے حامل اس لیے ہیں کہ عرب ملکوں سے تیل درآمد کرنے والوں میں مغربی ملکوں کی تعداد زیادہ ہے مغرب کے عربوں سے تعلقات اقتصادی مفادات کے تناظر میں دیکھے جانے چاہئیں۔

ایران ایک واحد ملک ہے جو اس خطے میں امریکا کی غلامی کرنے کے لیے تیار نہیں۔ امریکا ایران کا بھی دوست بن جائے گا اگر ایران ایٹمی ہتھیار تیارکرنے سے باز آجائے، اس حقیقت کو ایرانی قیادت اچھی طرح جانتی ہے آج ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں کہ امریکا کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش ایک دھوکا ہے اگر ایٹمی ہتھیار آپ کے پاس ہیں تو امریکا آپ کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا اگر ایٹمی ہتھیار آپ کے پاس نہیں ہیں تو امریکا ایران کے ساتھ جو چاہے کرے گا۔

ایٹمی ہتھیار رکھنا کوئی اچھی بات نہیں لیکن اس حوالے سے سب کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھنا چاہیے اگر آپ اسرائیل کو ایٹمی ہتھیار رکھنے کی اجازت دیتے ہیں اور ایران کو نہیں دیتے تو یہ نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ بین الاقوامی اخلاقیات کی بھی خلاف ورزی ہے ۔ اس پس منظر میں ایران کا موقف درست ہی نہیں بلکہ منصفانہ ہے اگر امریکا ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں دیکھنا چاہتا تو اسے اسرائیل کے ایٹمی ہتھیار کی بھی مخالفت کرنی چاہیے۔بشکریہ ایکسپریس نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …