ہفتہ , 20 اپریل 2024

وہ عام عادت جو دل کی صحت کے لیے تباہ کن

واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک)دن کے اختتام پر گھر یں سکون سے بیٹھ کر ٹیلیویژن دیکھنا کافی اچھا خیال لگتا ہے مگر یہ عادت دل کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی تحقیق میں بتایا گیا کہ جو لوگ دن بھر میں 4 گھنٹے سے زیادہ ٹی وی دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں، ان میں امراض قلب اور فالج سے موت کا خطرہ 50 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ سارا دن بیٹھ کر گزارنے کے مقابلے میں ٹی وی کے سامنے بیٹھنا دل کے لیے زیادہ تباہ کن ثابت ہوتا ہے کیونکہ پروگرام دیکھتے ہوئے لوگ اکثر زیادہ چربی والی غذائیں کھانا پسند کرتے ہیں۔محققین نے بتایا کہ درمیانی عمر میں اس عادت کے نتیجے میں ہارٹ اٹیک، فالج اور دیگر امراض قلب کا کطرہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ ایسے افراد دن کے اختتام پر جب ٹی وی دیکھنے بیٹھتے ہیں تو اس کے بعد وہ اپنی جگہ سے اسی وقت ہلتے ہیں، جب وہ سونے کے لیے بستر پر جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ٹی وی دیکھتے ہوئے زیادہ مقدار میں غذا کو جزوبدن بنانا اور پھر گھنٹوں تک بیٹھے رہنے ایک خطرناک امتزاج ہے جبکہ رات کے کھانے سے ہٹ کر بھی لوگ ٹیلیویژن دیکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ کھانا پسند کرتے ہیں جو کہ عام طور پر چپیس یا زیادہ نمک یا چینی والی کوئی چیز ہوتی ہے۔

ساڑھے 3 ہزار سے زائد افراد میں اس عادت کا جائزہ 8 برسوں سے زائد عرصے تک لیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ جو لوگ دن میں کئی گھنٹے ٹی وی دیکھتے ہوئے گزارتے ہیں، وہ جسمانی طور پر بہت کم متحرک ہوتے ہیں، جس سے جسمانی وزن بڑھ جاتا ہے، جبکہ ان کی غذائی عادات بھی ناقص ہوتی ہیں اور اکثر ہائی بلڈ پریشر کا بھی شکار ہوتے ہیں۔اس کے نتیجے میں ہر عمر کے افراد خصوصاً درمیانی عمر میں ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

محققین نے مشورہ دیا کہ اگر آپ دن بھر میں کئی گھنٹے تک ٹی وی دیکھنے کے عادی ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ ہفتہ بھر میں 150 منٹ تک سخت جسمانی سرگرمیوں کو بھی زندگی کا حصہ بناکر اس خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔یا ورزش کرنا مشکل لگتا ہے تو کم از کم تیز چہل قدمی یا جاگنگ کو ضرور اپنا کر بہت زیادہ وقت ٹی وی دیکھنے سے لاحق ہونے والے خطرات کو کم کرسکتے ہیں۔

یہ بھی دیکھیں

ڈائری لکھنے سے ذہنی و مدافعتی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

لندن:کمپیوٹرائزڈ اور اسمارٹ موبائل فون کے دور میں اب اگرچہ ڈائریز لکھنے کا رجحان کم …