بدھ , 24 اپریل 2024

رانا ثناء اللہ کی گرفتاری، سیاسی انتقام یا قدرت کا انتقام؟؟

(تحریر: تصور حسین شہزاد)

سابق وزیر قانون پنجاب اور مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کو اینٹی نارکوٹکس فورس نے فیصل آباد سے لاہور آتے ہوئے موٹروے پر سکھیکی کے قریب حراست میں لے لیا۔ رانا ثناء اللہ کو جب گرفتار کیا گیا تو دعویٰ کیا گیا کہ ان کی گاڑی سے منشیات برآمد ہوئی ہے۔ اے این ایف ذرائع کا موقف ہے کہ وہ کافی عرصے سے رانا ثناء اللہ کی ریکی کر رہے تھے۔ اے این ایف والوں کا مزید کہنا ہے کہ انہوں نے چند ماہ قبل کالعدم تنظیم کے کچھ کارکنوں کو گرفتار کیا تھا، جو کالعدم تنظیم کیلئے فنڈز جمع کرتے اور اسے تنظیم کی قیادت کو فراہم کرتے تھے۔ یہ کارکن مخصوص ڈونرز کے علاوہ منشیات کی فروخت سے رقوم جمع کرکے تنظیم تک پہنچاتے تھے۔ اس حوالے سے دورانِ تفتیش انہی کارکنوں نے ہی انکشاف کیا تھا کہ انہیں رانا ثناء اللہ کی سرپرستی حاصل ہے۔ تب سے اے این ایف نے رانا ثناء اللہ کی مانیٹرنگ شروع کر رکھی تھی۔ موٹروے پر ہونیوالی کارروائی بھی مخبر کی اطلاع پر کی گئی، جس نے اے این ایف کو اطلاع دی تھی کہ رانا ثناء اللہ اس وقت منشیات لیکر لاہور جا رہے ہیں اور منیشات کی یہ کھیپ بیرون ملک بھجوائی جانی ہے۔

کچھ حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک سیاسی رہنما ایسی "اوچھی حرکت” کیسے کرسکتا ہے جبکہ وہ ہے بھی اپوزیشن میں۔ تو اس حوالے سے عرض ہے کہ یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ کالعدم سپاہ صحابہ کے جھنگ سے ایک رکن اسمبلی شیخ حاکم علی کے بارے میں بھی مخالفین کہتے تھے کہ وہ اپنی سرکاری گاڑی میں، سرکاری پروٹوکول کیساتھ دہشت گردوں کیلئے اسلحہ سپلائی کرتے ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر کے پاس یہی محفوظ ترین راستہ ہوتا ہے کہ وہ سرکاری وسائل کی آڑ میں اپنے "دھندے” کو محفوظ انداز میں چلا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیاسی سٹیٹس حاصل کرنے کیلئے ہر حد عبور کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ رانا ثناء اللہ کی گرفتاری پر سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی بیٹی بھی میدان میں آئی ہیں۔ سارہ تاثیر نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ میں آج بہت خوش ہوں کہ میرے والد کے قتل کا ماسٹر مائنڈ پکڑا گیا ہے۔ سارہ تاثیر نے یہ انکشاف پہلی بار کیا ہے کہ ان کے والد کے قتل میں بھی رانا ثناء اللہ کا ہاتھ تھا، ممکن ہے پہلے کسی مصلحت کے تحت ہی تاثیر فیملی نے خاموشی اختیار کر رکھی ہو۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پنجاب پولیس میں رانا ثناء اللہ کے بہت سے عزیز و اقارب اہم عہدوں پر فائز ہیں، جبکہ بہت سے اپنے "کارِ خاص” بھی رانا ثناء اللہ نے اپنی وزارت کے دور میں پولیس میں بھرتی کروائے تھے۔ رانا ثناء اللہ کے مخالفین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پولیس میں بھرتی ہونیوالوں میں بہت سے دہشتگرد بھی تھے، جنہیں رانا ثناء اللہ نے سرپرستی فراہم کی اور وہ بغیر کسی جانچ پڑتال کے پولیس میں بھرتی ہوگئے۔ پھر سانحہ ماڈل ٹاون رونما ہوا تو ڈاکٹر طاہرالقادری نے اس کا ماسٹر مائنڈ بھی رانا ثناء اللہ کو ہی قرار دیا۔ جے آئی ٹی کے تحقیقات میں یہ بات ثابت بھی ہوئی، مگر مصلحت کے تحت وہ رپورٹ تاحال دبائی ہوئی ہے۔ چودھری شیر علی کے بیانات ریکارڈ پر ہیں، جن میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ رانا ثناء اللہ نے سیاسی سٹیٹس کے حصول کیلئے بہت سے مخالفین کو اپنے راستے سے ہٹوایا، چودھری شیر علی نے تو باقاعدہ ایک فہرست جاری کی تھی کہ یہ یہ لوگ رانا ثناء اللہ نے قتل کروائے ہیں۔ پنجاب کی سیاست میں یہ انداز بہرحال موجود ہے کہ رسہ گیروں اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کرنیوالے ہی الیکشن میں "قابلِ انتخاب” قرار پاتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی ہمارے معاشرے کی سوچ ہی اس معاملے میں منفی ہو جاتی ہے۔

راقم کے بنیادی حلقے میں 90ء کی دہائی میں ایک پڑھا لکھا نوجوان مظفر علوی، ایم پی اے کی سیٹ پر بڑے سیاستدانوں کے سامنے الیکشن میں کھڑا ہوگیا تھا۔ جب وہ ووٹ مانگنے کیلئے حلقے میں نکلا تو سب سے مشترک اور سب سے زیادہ یہی سوال کیا گیا کہ "ساڈے منڈے نوں پُلس نے پھڑ لیا تے توں کیویں چھڈوائیں گا” (ہمارے لڑکے کو اگر پولیس نے گرفتار کر لیا تو آپ اسے کیسے رہا کروائیں گے) مطلب لوگوں کی سوچ یہ تھی کہ ایم پی اے یا ایم این اے ہوتا ہی وہی ہے، جو تھانے میں جا کر حوالات سے ملزم کو نکال لائے، جو ایس ایچ او کو کان پکڑوا کر مرغا بنا دے۔ گاوں کیساتھ ساتھ شہر کی سیاست کا انداز بھی کچھ ایسا ہی تھا، اب تو کافی حد تک سوچ میں تبدیلی آچکی ہے اور عوام باشعور ہوچکے ہیں، لیکن ڈیرہ داری کی سیاست پنجاب میں اب بھی گہری جڑیں رکھتی ہے۔ رانا ثناء اللہ کا سمندری روڈ پر ڈیرہ مشہور ہے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ یہ بہترین گھر بھی رانا ثناء اللہ کو اس ٹھیکیدار نے بنا کر تحفہ دیا تھا، جسے رانا صاحب نے فیصل آباد کے سمندری روڈ کی تعمیر کا ٹھیکہ دلوایا تھا، جبکہ رانا ثناء اللہ نے نثار کالونی میں اپنا پرانا گھر دینی مدرسے کو ڈونیٹ کر دیا تھا۔ اس گھر میں آج بھی دینی مدرسہ چل رہا ہے۔

چودھری شیر علی نے رانا ثناء اللہ کیخلاف جو دعوے کئے تھے، وہ بے بنیاد یا سیاسی نہیں تھے بلکہ ان کے پیچھے حقیقت غالب تھی۔ مگر نواز شریف نے دونوں کو بلوا کر "چپ کا روزہ رکھوا دیا تھا۔” نواز شریف مداخلت نہ کرتے تو رانا ثناء اللہ کیخلاف چارج شیٹ بہت طویل ہونا تھی۔ کہتے ہیں کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ خدا انتقام ضرور لیتا ہے۔ دیر سویر ہوسکتی ہے، مگر معافی نہیں۔ ممکن ہے رانا ثناء اللہ کی گاڑی سے منشیات برآمد نہ ہوئی ہو، مگر رانا ثناء اللہ جیل میں کسی ایسے یتیم یا بیوہ کی آہ سے ضرور پہنچے ہیں، جنہیں انہوں نے مبینہ طور پر اپنے راستے سے ہٹوایا تھا۔ رانا ثناء اللہ کی گرفتاری سیاسی انتقام نہیں بلکہ قدرت کا انتقام دکھائی دیتی ہے اور اس کیس میں رانا ثناء اللہ جیل سے باہر آتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے قدرت پہلے رسی دراز کرتی ہے، پھر اچانک کھینچ لیتی ہے۔ لگ یہی رہا ہے کہ اب قدرت نے اس ڈھیلی رسی کو کھینچ لیا ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …