منگل , 23 اپریل 2024

تحقیقاتی کمیشن

(ظہیر اختر بیدری)

سیاست اور جمہوریت کا بد ترین نمونہ پاکستان ۔ ایسا کیوں؟ ایسا اس لیے کہ ہمارے سیاستدان بددیانتی کی ایسی مثال ہیں جس کا ساری دنیا میں کوئی جواب نہیں۔ یعنی چوری کرو اور ایماندار لوگوں کے خلاف پروپیگنڈا آسمان تک پہنچا دو کہ بے چارے عوام کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جائیں۔

جھوٹے پروپیگنڈے کی بھی ایک حد ہوتی ہے یہ کیسا ظلم ہے یہ کیسا انیائے ہے کہ 10سالوں کے دوران 24 ہزار ارب کا قرضہ ملک پر چڑھانے والے 10 ماہ کی حکومت پر الزام دھر رہے ہیں کہ 10 ماہ کی حکومت نے جتنا قرض لیا ہے اتنا قرض 10سال کی حکومتوں نے نہیں لیا۔ 24 ہزار ارب کا قرض جو پچھلے دس سالوں کے دوران لیا گیا وہ گیا کہاں؟

عمران خان کی ایمانداری پر اپوزیشن بھی کوئی بہتان نہیں لگا سکتی۔ ملک پر قرضہ اس وقت چڑھتا ہے جب بھاری قرض کرپشن کی نذر ہوجائے اگر 24 ہزار ارب روپیہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا گیا ہوتا تو عوام کا معیار زندگی بلند ہو جاتا لیکن عوام کا حال یہ ہے کہ انھیں سارا دن محنت کرنے کے باوجود پیٹ بھر روٹی نصیب نہیں ہوتی، اگر یہ سچ ہے تو پھر 24 ہزار ارب کی بھاری اور ناقابل یقین رقم کہاں گئی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو عوام کو ان حکومتوں سے کرنا چاہیے جن کے دور حکومت میں یہ قرض ملک پر چڑھا ہے؟

یہ محض اس سال کی داستان نہیں بلکہ کئی عشروں کا تسلسل ہے۔ اپوزیشن بڑے تسلسل کے ساتھ حکومت پر یہ الزام لگا رہی ہے کہ عمران حکومت سلیکٹڈ ہے، یعنی عوام کی منتخب حکومت نہیں خواص کی منتخب کردہ حکومت ہے اور خواص کو ہماری اشرافیہ ’’خلائی مخلوق‘‘ کہتی ہے یعنی اسٹیبلشمنٹ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب تک جتنی الیکٹڈ حکومتوں کو اقتدار سے ہٹایا گیا ان پر الزام کیا تھا؟ ’’کرپشن‘‘ کیا جمہوری حکومتوں کا کام صرف کرپشن رہ گیا ہے؟

اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے کسی سول حکومت کو نکال باہر کیا تو وہ بھی الزام کرپشن کے ساتھ ہی حکومتوں کا تختہ الٹا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ سویلین صدور نے بھی منتخب حکومتوں کو نکال باہر کیا تو ان سویلین حکومتوں پر الزام کرپشن کا ہی لگایا۔ کرپشن خواہ کوئی حکومت کرے اس کرپشن کا اصلی محرک ’’سرمایہ دارانہ نظام‘‘ ہے جو انسان خصوصاً حکمران طبقات کو کرپشن کی ترغیب اور آسانیاں فراہم کرتا ہے۔

اسی نظام نے برے ہی نہیں اچھے لوگوں کو بھی دولت کی ہوس کا اسیر بنادیا۔ آج ساری دنیا دولت کے پیچھے بھاگ رہی ہے کوئی اپنی جائز ضرورتیں پوری کرنے کے لیے دولت کے پیچھے بھاگ رہا ہے کوئی دولت جمع کرنے اور دولت پر قبضہ جمائے رکھنے کے لیے دولت کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ اس حوالے سے ساری دنیا میں ایک ریس لگی ہوئی ہے۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں قیام پاکستان کے ساتھ ہی اشرافیہ نے سیاست اور اقتدار پر قبضہ کرلیا جو آج تک برقرار ہے۔ ایک سرپھرے انسان نے 24 ہزار ارب کی بھاری اور ناقابل یقین رقم کی انکوائری کا اعلان کیا ہے ابھی انکوائری کا آغاز بھی نہیں ہوا کہ ہماری ’’ایماندار‘‘ اشرافیہ نے شور محشر کھڑا کردیا ہے کیونکہ انکوائری ہوگی تو اشرافیہ رسوا ہوجائے گی یہی خوف اسے حکومت کو گرانے پر اکسا رہا ہے۔ اشرافیہ کے سامنے صرف ایک ہی راستہ اپنے آپ کو بچانے کا رہ گیا ہے کہ عمران حکومت کو چلنے نہ دیا جائے اشرافیہ کو یہ پریشانی بھی لاحق ہے کہ عمران حکومت کے دوست ممالک پاکستان کے اس برے وقت میں اربوں ڈالر سے اس کی مدد کر رہے ہیں کیونکہ ان دوست ملکوں کو یقین ہے کہ عمران خان کی حکومت ان کی دی ہوئی اربوں کی رقم کا ناجائز استعمال نہیں کرے گی۔

اشرافیہ 10 ماہ میں عمران حکومت پر یہ الزام نہیں لگا سکی کہ عمران خان نے ایک پائی کی کرپشن کی ہے۔ یہی ایمانداری عمران خان کو اب تک عوام میں مقبول بنا رہی ہے۔ عوام مہنگائی سے بہت پریشان ہیں لیکن حکومت کی مجبوریاں بھی ان کے سامنے ہیں جو انھیں سڑکوں پر آنے سے روک رہی ہیں۔ عوام کہہ رہے ہیں کہ وہ حکومت سے مایوس تو ہو رہے ہیں لیکن حکومت سے نفرت نہیں کرتے۔

اشرافیہ عمران حکومت پر یہ الزام لگا رہی ہے کہ وہ دنیا بھر میں بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ اول تو ماضی قریب کی تمام حکومتیں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سمیت ساری قرض فراہم کرنے والی ایجنسیوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتی اور قرض مانگتی رہی ہیں جس کا ثبوت وہ 24 ہزار ارب کا قرض ہے جو ماضی کی حکومتوں نے عالمی مالیاتی اداروں سے لیا ہے جس کا سود ادا کرنا عمران حکومت کو بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔

عمران خان نے 24 ہزار ارب قرض کے حوالے سے جو انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے اس سے ہماری سابق حکومتوں کو خوف نہیں کھانا چاہیے بلکہ انکوائری کمیشن کی مدد کرنی چاہیے تاکہ یہ پتا چل سکے کہ اتنی بھاری رقم کہاں گئی؟ اپوزیشن کے سمجھدار لوگ یہ معقول مطالبہ کر رہے ہیں کہ انکوائری کمیشن 10 سالوں کے ساتھ عمران حکومت کے 10 ماہ کو بھی انکوائری میں شامل کرے۔

اپوزیشن انتہائی خوفزدہ ہے کہ اگر آزادانہ انکوائری ہوئی تو بہت سارے محترمین ہی نہیں بلکہ ان کے دسترخوان کا جھوٹا کھانے والے پاک بازوں پر بھی مصیبت آجائے گی۔ اپوزیشن اس مصیبت سے بچنے کے لیے احتجاج کا سہارا لے رہی ہے لیکن اپوزیشن کو شاید اندازہ نہیں کہ اس احتجاج میں ان کے سیاسی کارکن تو حصہ لے سکتے ہیں عوام ہرگز اس نام نہاد احتجاج میں شامل نہیں ہوں گے۔ غالباً اس کا اندازہ ہماری اپوزیشن کو بھی ہوگا۔بشکریہ ایکسپریس نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …