پاکستان اور روس علاقائی اور عالمی سیاست کے دو اہم کردار ہیں لیکن پاکستان اپنے قیام کے بعد غیر جانبدار تحریک سے وابستہ ہونے کی درست حکمت عملی اپنانے کے بجائے ایک ہی عالمی طاقت کے کیمپ کا حصہ بن کر رہ گیا۔ اس کے نتیجے میں جغرافیائی قربت کے باوجود روس سے، جو اس وقت سوویت یونین کی شکل میں غیر معمولی عالمی طاقت تھا، ہمارے فاصلے بڑھتے چلے گئے، تاہم پچھلے تین عشروں کے دوران بین الاقوامی سیاست میں واقع ہونے والی تبدیلیوں، دفاعی صورت حال، معاشی حالات اور ابھرتے ہوئے علاقائی خطرات نے پاکستان اور روس کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی راہ دکھائی اور دونوں ملکوں کے درمیان دفاع، تجارت، سرمایہ کاری، معیشت، سائنس، ٹیکنالوجی، زراعت، تعلیم اور ثقافت کے شعبوں میں کافی تعاون ہوا مگر اِن تعلقات میں خاصے نشیب و فراز آتے رہے۔
اب ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنا بھارت کی علانیہ پالیسی بن چکا ہے، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی طرف سے وزیراعظم پاکستان کو دورۂ روس کی دعوت نہایت خوش آئند ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو یہ دعوت بشکیک میں ایس سی او سمٹ میں دی گئی جو انہوں نے قبول کر لی ہے۔ صدر پیوٹن کا وزیراعظم سے کہنا تھا کہ خوشی ہو گی اگر آپ روس میں کثیر الملکی فورم میں شرکت کرینگے۔ جس پر وزیراعظم نے روسی صدر کو اس
فورم میں شرکت کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعظم کا یہ دورہ ستمبر میں شیڈول ہے۔ وہ ایسٹرن اکنامک فورم میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کریں گے جو 4سے 6ستمبر تک روسی شہر ولادی وستوک میں ہوگا۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی طرف سے وزیراعظم پاکستان کو دورے کی دعوت، جہاں اقوامِ عالم کو یہ پیغام ہے کہ پاکستان دنیا کا اہم ملک ہے وہیں ہمارے حکمرانوں کیلئے ملک کو مشکلات سے نکال کر عالمی برادری میں خود کو منوانے کا اہم موقع بھی ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِن دوروں کو ثمر آور بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی جائے۔بشکریہ جنگ نیوز