جمعرات , 25 اپریل 2024

آئی ایم ایف کے قرضے کی منظوری کے بعد

(ڈاکٹر رضوان الحسن)

3جولائی کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کیلئے توسیعی فنڈ سہولت (EFF) کی اسکیم کے تحت توازن ادائیگی کو سہارا دینے کیلئے3 فیصد سے کم کی شرح سود پر6 ارب ڈالر کے قرضے کی منظوری دیدی ہے، ان6 ارب ڈالر میں سے ایک ارب فوری طور پر جبکہ رواں مالی سال کے اختتام تک مزید ایک ارب ڈالر ملیں گے۔ اس کے علاوہ باقی رقم39 مہینوں میں قسطوں کی شکل میں ادا کی جائے گی۔ حکومت نے اس قرضے کی منظوری پر اطمینان کا سانس لیا ہے اور عوام کو خوشخبری سنائی ہے کہ اس کے بعد دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں مثلاً عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ سے اربوں ڈالر کے رکے ہوئے قرضے ملنا شروع ہوجائیں گے۔ عوام حیران ہیں کہ اسے خوشخبری سمجھیں یا بری خبر۔ جنہیں مہنگائی کے طوفان کی وجہ سے جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہورہا ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دکاندار کیلئے دکان کھولنا مشکل، فیکٹری مالکان کیلئے فیکٹری چلانا مشکل، تاجر کیلئے تجارت کرنا مشکل اور کسان کیلئے کاشتکاری مشکل ہوگئی ہے۔ نجی کاروباری اور صنعتی اداروں کے ملازمین کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا ہوا ہے کہ کب ان کی ملازمت ختم ہورہی ہے، کیونکہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے، ایف بی آر کے نئے قوانین اور ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ کھاد کی بوری پر سبسڈی ختم کردی گئی ہے جس کی وجہ سے قیمت فی بوری2000 روپے تک پہنچ گئی ہے، اتنی مہنگی کھاد کیساتھ کاشتکار کیسے فصل لگائے گا اور اگر فصل کاشت ہوگئی تو مہنگی پیداوار کون خریدے گا۔اب جبکہ آئی ایم ایف کا قرضہ منظور ہوگیا ہے حکومت کو ان اصل وجوہات پر توجہ دینا ہوگی جو پاکستان کے معاشی مسائل کی جڑ ہیں۔ اِن میں سے ایک بین الاقوامی تجارت میں بہت بڑا خسارہ ہے یعنی ایکسپورٹ کم ہیں اور امپورٹ زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر کی طلب زیادہ اور رسد(Supply) کم ہے۔ چنانچہ ڈالر پر دباؤ بڑھتا ہے اور اس سے ڈالر کی قدر گر جاتی ہے، اس کا حل یہ ہے کہ ایکسپورٹرز کو آسانیاں فراہم کی جائیں، بجلی اور گیس سستی فراہم کی جائے، قرضوں پر شرح سود ختم کی جائے اور ایکسچینج ریٹ میں بے یقینی ختم کی جائے مگر بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اس معاملے پر کوئی قسم اُٹھانے کو تیار نہیں ہے۔

چنانچہ ایکسپورٹ کیسے بڑھیں گی اور اگر نہیں بڑھ سکیں تو تجارتی خسارہ برقرار رہے گا اور ڈالر پر دباؤ کم نہیں ہوگا۔معاشی مسائل کی دوسری وجہ ٹیکس وصولی کا محدود دائرہ ہے، اس وجہ سے ٹیکسوں کی وصولی کم ہوتی ہے، دوسرے الفاظ میں اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہے اور یہ ایک صاف کھلی بات ہے کہ جس گھر، جس کاروبار اور جس ملک کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہوں وہ زیادہ عرصے چل نہیں سکتا۔ ٹیکسوں کا بوجھ زیادہ تر کارپوریٹ سیکٹر اور تنخواہ دار طبقے پر ہے پاکستان میں خدمات کا شعبہ جی ڈی پی میں60فیصد ہے جبکہ ٹیکس وصولی میں اس کا حصہ صرف3 فیصد ہے۔ اس کا مطلب بہت سے ادارے، بہت سے کاروبار اور بہت سے شعبے ٹیکس نیٹ میں شامل ہی نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں ایف بی آر اور دوسرے سرکاری ادارے مختلف اقدامات کر رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جہاں کاروبار ہی سکڑ رہا ہو، معاشی سرگرمیاں گرتی جارہی ہوں ٹیکس کس طرح جمع ہوگا۔

ساٹھ ستر سال کا بگاڑ کیا ایک سال میں ختم ہوسکتا ہے حکومت نے ٹیکس وصولی میں اضافہ کی کوششوں کیساتھ سال20۔2019 کیلئے ہدف 5555 ہزار ارب روپے رکھا ہے جو موجودہ ٹیکس وصولی سے30فیصد زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں ملک کے نامور اور تجربہ کار ماہرین معیشت متفق ہیں کہ ٹیکسوں کی وصولی کیلئے یہ ہدف غیرحقیقی ہے اور تقریباً ناممکن ہے۔ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ چاہے وہ کارخانے دار ہوں، ٹرانسپورٹرز ہوں، تعمیراتی شعبے سے منسلک افراد ہوں، کار ڈیلرز ہوں یا عام دکاندار سب ہی حکومتی اقدامات کیخلاف احتجاج کرنے اور ہڑتال کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ اس صورتحال میں ٹیکس کس طرح جمع ہوگا۔اسی طرح حکومت نے بڑے زور وشور سے اعلان کیا تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ اکاؤنٹ ہولڈرز کا ڈیٹا ہمیں مل گیا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساڑھے سات ارب ڈالر بیرون ملکوں میں جمع ہیں، ہم یہ رقم ملک میں واپس لیکر آئیں گے اور ڈالر کا مسئلہ حل ہو جائے گا مگر حکومت اس اعلان کے بعد کوئی عملی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اسی طرح اثاثوں کی ڈیکلریشن پر حکومت نے درخواستیں بھی کیں اور دھمکیاں بھی دیں مگر صرف70ارب روپے کا ریونیو حاصل ہو سکا۔ اِن دونوں مثالوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی اور بیروزگاری کا کیا حال ہوگا۔بشکریہ مشرق نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …