بدھ , 24 اپریل 2024

جج ارشد ملک مبینہ ویڈیو کیس: سپریم کورٹ سے کمیشن بنانے کا مطالبہ

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل 3 رکنی بینچ وکیل اشتیاق احمد مرزا کی جانب سے اپنے والی چوہدری منیر صادق کے ذریعے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کر رہا ہے۔

علاوہ ازیں ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ میں معاملے کے حقائق کی مکمل تحقیقات کے لیے مزید 2 درخواستیں دائر کردی گئی ہیں، ان نئی درخواستوں میں سے ایک ایڈووکیٹ سہیل اختر نے اپنے وکیل محمد اکرام چوہدری کے توسط سے دائر کی ہے جبکہ دوسری ایڈووکیٹ طارق اسد سے خود دائر کی ہے۔

 

عدالت میں سماعت کے آغاز پر درخواست گزار اشتیاق مرزا کے وکیل منیر صادق نے دلائل دیے کہ ویڈیو لیکس اسکینڈل کے ذریعےعدلیہ پر سوالات اٹھائے گئے، یہ عدلیہ کی آزادی اور وقار کے حوالے سے ایک اہم اور حساس معاملہ ہے، لہٰذا عدالت اس معاملے کی تحقیقات کروا کر ذمہ داران کا تعین کرے۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ یہ مقدمہ مفاد عامہ کا ہے، مریم نواز نے 6 جولائی کو لاہور میں پریس کانفرنس کی، جس میں کچھ الزامات لگائے گئے، جس میں کہا گیا کہ عدلیہ دباؤ میں کام کر رہی ہے۔

وکیل نے کہا کہ یہ سنگین الزامات ہیں، اس کی انکوائری ہونی چاہیے، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ چاہتے کیا ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ میں سچ کی تلاش چاہتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور وکلا نے ویڈیو اسکینڈل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کا کہا، لہٰذا ایک کمیشن بنایا جائے، بے شک یہ کمیشن ایک رکنی ہی کیوں نہ ہو۔

وکیل کے جواب پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کمیشن کا سربراہ کون ہو، جس پر وکیل نے کہا کہ جج کمیشن کے سربراہ ہو، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ ایسا کلچر بن گیا ہے کہ ایک کے خراب ہونے پر سب کو ایسا سمجھا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ سارے جج ایسے ہیں، سارے سیاستدان ایسے ہیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ کمیشن کیا دیکھے، اس پر وکیل نے کہا کہ کمیشن سچائی کو دیکھے کہ اگر الزام ثابت ہو تو ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہیے۔

دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ احتساب عدالت کے جج نے بیان حلفی کے ذریعے کچھ حقائق بیان کیے، وزیر اعظم عمران خان نے بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ عد لیہ ویڈیو کے معاملے پر نوٹس لینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور امیر جماعت اسلامی نے بھی عدلیہ سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا، سیاسی جماعتوں کا ماننا ہے کہ عدلیہ تحقیقات کرے، اس کے علاوہ پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے بھی یہی مطالبہ دہرایا۔

وکیل کے دلائل پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کے کہنے پر کوئی کام کریں گے تو کیا ہم آزاد ہوں گے، ازخود نوٹس کسی کے مطالبے پر لیں تو پھر وہ ازخود نوٹس نہیں ہوا۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب سے بنی نوع انسان کی پیدائش ہوئی ہے، سچ کی تلاش جاری ہے، اگر یہ سچ تلاش کرنا ہے تو پھر جن ججوں نے مرکزی اپیل سنی ہے وہ کیا کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کوئی فیصلہ دیا تو ہائی کورٹ پابند ہو جائے گی، پھر ہائی کورٹ کیسے کارروائی کرے گی۔

اس پر وکیل صفائی نے کہا کہ فیصلہ سپریم کورٹ کا نہیں بلکہ کمیشن کی فائنڈنگ پر ہو، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کو اسی طرف لے کر آنا چاہ رہا تھا، کمشن کی فائنڈنگ پر کوئی عدالت نوٹس نہیں لے سکتی۔

اس دوران درخواست گزار اشتیاق مرزا کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر دوسرے درخواست گزار سہیل اختر کے وکیل اکرام چوہدری نے دلائل دینا شروع کیے۔

اکرام چوہدری نے دلائل دیے کہ مریم نواز کا بیان ہے کہ نواز شریف کے خلاف دباؤ پر فیصلہ کیا گیا، ساتھ ہی انہوں نے عدالت میں نواز شریف کا بیان اور جج ارشد ملک کا بیان حلفی بھی پڑھا۔

وکیل نے کہا کہ کسی ادارے پر سے اعتبار اٹھنا بذات خود بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، ان جج کے بیان کو انتہائی احتیاط سے دیکھنا چاہیے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو جج نے کہا وہ انتہائی غیر معمولی باتیں ہیں، ہمیں بتائیں ہم کیا کر سکتے ہیں کیا نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل نے جج کو کرسی ماری یہ بھی غیرمعمولی معاملہ ہے لیکن ایک جج نے وکیل کو پیپرویٹ مارا تو کیا یہ غیر معمولی معاملہ نہیں؟۔

اس پر وکیل نے جواب دیا کہ اگر عدلیہ سے متعلق بیانات جاری رہے تو پھر ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے میں دباؤ ہوگا۔

سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پہلا نقطہ ادارے کا معاملہ ہیں، جج کا معاملہ عدالت دیکھے گی، ہر روز معاملے سے متعلق معلومات آرہی ہیں، اس گرد کو اب بیٹھ جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایسی تجویز چاہتے ہیں جس سے جذبات کے بغیر فیصلہ کیا جاسکے، اس پر وکیل صفائی نے کہا کہ سپریم کورٹ توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کرے۔

اس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جو الزامات جج پر لگائے گئے ہیں، اس معاملے کو کون دیکھے گا، کیا وہ جج خود دیکھے گا جس پر الزامات ہیں۔

سماعت کے دوران وکیل نے استدعا کی فوجداری اور سائبر قوانین کے تحت عدلیہ معاملے کی تحقیقات کروائے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ ملک میں جتنے مقدمات درج ہوتے ہیں، جتنی تفتیش ہوتی ہے، کیا سپریم کورٹ کے حکم سے ہوتی ہیں۔

وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ بیانات اور پھر جوابی بیانات کی وجہ سے عدلیہ کی تضحیک ہورہی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اسی وجہ سے اس مقدمے کو سن رہے ہیں۔

بعد ازاں دونوں درخواست گزاروں کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا گیا۔

سپریم کورٹ میں سخت سیکیورٹی انتظامات

واضح رہے کہ آج ہونے والی سماعت کے پیش نظر سپریم کورٹ کے احاطے میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ آفس نے کمرہ عدالت نمبر 1 میں محدودو نشستیں کو دیکھتے ہوئے کمرہ عدالت میں داخلے کے لیے خصوصی سیکیورٹی پاس کا فیصلہ کیا جو ایس پی (سیکیورٹی) سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کیے گئے اور صرف انہیں درخواست گزاروں یا سائلین کو اجازت دی گئی جن کے کیسز سماعت کے لیے مقرر ہیں، تاہم روزانہ کی بنیاد پر آنے والے ایڈووکیٹ اور صحافیوں کو بغیر پاسز کے آنے کی اجازت دی گئی۔

عدالت میں دائر درخواست

خیال رہے کہ آج ہونے والی سماعت کی درخواست سماجی کارکن اشتیاق مرزا نے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر کی ہے، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت عظمیٰ کو عدلیہ کی آزادی، وقار، عزت اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری احکامات جاری کرنے چاہئیں۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ یہ عدلیہ کی آزادی کے لیے ضروری تھا کیونکہ یہ درخواست گزار کا حق ہے کہ اس کی اپنی زندگی، آزادی اور ملکیت سمیت تمام بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے آزاد عدلیہ ہو۔

 

عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے واقعات نے یہ تاثر دیا کہ ملک میں عدلیہ آزادانہ کام نہیں کررہی اور اسے مخصوص حکم کے تحت بلیک میل اور دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

اسی طرح درخواست گزار سہیل اختر نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ وہ متعلقہ محکمہ کو حکم دے کہ وہ سامنے آنے والی ویڈیو کلپس اور پرنٹ میڈیا میں شائع خبروں کی تحقیقات کا آغاز کریں اور اسے فارنزک معائنے کے لیے بین الاقوامی طرز کے ادارے کے پاس بھیجا جائے۔

ساتھ ہی یہ بھی درخواست کی گئی ہے کہ عدالت وفاقی حکومت، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، نوائے وقت اور احتساب عدالت کے جج کو طلب کرے اور مریم نواز کی 6 جولائی کی پریس کانفرنس جس میں جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیوز جاری کی گئی تھیں سے متعلق ضروری مواد فراہم کریں۔

جج ارشد ملک مبینہ ویڈیو کے معاملے کا پس منظر

یاد رہے کہ 6 جولائی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والےجج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔

لیگی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔

مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ ‘نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے۔ لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔

انہوں نے ویڈیو سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ جج ارشد ملک ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، ویڈیو میں جج خود کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں ہے۔

تاہم ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ان پر لگنے والے الزامات پر جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کی تھی۔

جج ارشد ملک نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے پریس کانفرنس کے دوران دکھائی جانے والی ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ ان کی مسلم لیگ (ن) کے ناصر بٹ اور ان کے بھائی عبداللہ بٹ کے ساتھ پرانی شناسائی ہے اور دونوں بھائی مختلف اوقات میں مجھ سے مل بھی چکے ہیں۔

اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔

بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانےکا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے ان جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔

 

اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

بیان حلفی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے بعد عہدے سے استعفیٰ دینے کے لیے انہیں 50 کروڑ روپے رشوت دینے کی پیشکش کی تھی۔

جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔

بیان حلفی میں جج ارشد ملک نے کہا تجا کہ فروری 2018 میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر 2 میں بطور جج تعینات ہونے کے بعد مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ نے رابطہ کیا اور ملاقات کی۔

ساتھ ہی اپنے بیان حلفی میں جج ارشد ملک نے کہا تھا کہ اس ملاقات میں ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں موجود بااثر شخصیت کو خصوصی اور ذاتی طور پر میرا نام تجویز کرنے کی وجہ سے مجھے احتساب عدالت نمبر 2 میں جج تعینات کیا گیا، اس حوالے سے ناصر جنجوعہ نے وہاں موجود ایک اور شخص سے کہا تھا کہ میں نے آپ کو چند ہفتے پہلے کہا تھا نا کہ محمد ارشد ملک احتساب عدالت میں جج تعینات ہوگا۔

یاد رہے کہ ارشد ملک وہی جج ہیں جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا تھا۔

احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے قومی احتساب بیورو کی جانب سے دائر ریفرنسز پر 19 دسمبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ 24 دسمبر 2018 کو سنایا تھا۔

یہ بھی دیکھیں

سعودی عرب نے 3 ارب ڈالر کے ڈپازٹ کی مدت میں توسیع کردی

کراچی: سعودی عرب نے پاکستان کی معیشت کو استحکام دینے کے لیے پاکستان کے ساتھ …